Monday, October 10, 2011

بلاگ کا آغاز

آج سے میں نے کوشش کرنی ہے کہ ہفتے میں دو یا تین بار بلاگ پر کچھ نہ کچھ لکھوں گا۔

مظہر کلیم ایم اے صاحب کی پہلی تحریر نظر سے گذری جو انہوں نے عمران سیریز کے حوالے سے لکھی تھی۔ ناول کا نام ہے ماکا زونگا اور یہ شاید ان کی پہلی تحریر تھی۔ ظاہر ہے کہ بطور مصنف ان کا کچا پن صاف واضح تھا۔ ایک چھوٹی سی مثال جس میں ہمارے ہیرو یعنی عمران کے ایک ساتھی کتاب کے صفحہ نمبر ۳۶ پر دشمن کا پیچھا کرتے ہیں۔ ان کا دشمن کار میں بیٹھ رہا تھا اور ہمارے جاسوس کے پٹھے نے ادھر اُدھر دیکھ کر اسی کی گاڑی کی ڈکی اٹھائی اور اندر گھس گئے۔ کیا کمال کی تصویر کشی کی ہے۔ ڈکی کو ہلکا سا کھولے ہوئے یہی جاسوس کے پٹھے جب ایک ٹیکسی میں بیٹھے صفدر کو دیکھتے ہیں تو اس کی قمیض کے کف میں لگے مخصوص بٹن کو دیکھ کر انہوں نے صفدر کو پہچان لیا۔

ایک اور مقام پر عمران صاحب اپنی جیب سے رومال نکالتے ہیں اور ایک دشمن کے ناک پر رکھ دیتے ہیں۔ اس رومال میں کلوروفارم تھا اور شاید ضرورت سے زیادہ ہی کیونکہ بندہ فوراً ہی بے ہوش ہو گیا۔

ایک جگہ عمران صاحب فرماتے ہیں کہ پانچ سو میگا پاور کے دس بم لے آؤ۔ بموں میں میگا پاور کا استعمال کب سے شروع ہوا، اس کی بابت راوی خاموش ہے۔ یہ بم ہیڈکوارٹر کی تباہی کے لئے استعمال ہونے تھے۔ ان میں سے ایک بم کو عمران صآحب اس شیشے کے جار کو توڑنے کے لئے استعمال کرتے ہیں جس میں کیپٹن شکیل قید تھا۔ دو سیکنڈ کا وقت فیڈ کر کے عمران صاحب وہیں زمین پر لیٹ جاتے ہیں۔ "پانچ سو میگا پاور" کا بم شیشے کے اس جار کو توڑ ڈالتا ہے۔

پھر اچانک ہی عمران صاحب اینٹی میگنٹ آلات کو آزماتے ہیں جو شاید مقناطیس کے خلاف کام کرتے ہوں گے۔ تاہم ان آلات کی مدد سے عمران صاحب نے اپنی سیکرٹ سروس کے تمام افراد کو ماکا زونگا کے اثر سے نکال لیتے ہیں۔ پھر عمران صاحب کی تجویز کے مطابق ہی فوج کے پورے دستے کو یہی اینٹی میگنٹ آلات دے دیئے جاتے ہیں۔ اب یہ آلہ تھا کیا، اس کا کام کیا تھا اور اتنی بڑی مقدار میں کیسے تیار شدہ آلات مل گئے کہ ایک گھنٹے میں پوری ملٹری کو مہیا کر دیے گئے، اس کے بارے بھی مصنف صاحب خاموش ہیں۔

پھر آگے چل کر عمران صاحب اپنے ساتھیوں کے ہمراہ آے آر سی کمپنی کے ہوائی جہاز پر سوار ہوتے ہیں جس میں ۳۰ دیگر مسافر بھی ہوتے ہیں۔ مصنف کے خیال میں یہ جہاز براہ راست نیویارک جا رہا تھا۔ عمران صاحب کی گودی سے کیمرہ چھین کر ایک اور مسافر باتھ روم جا کر اس کی کھڑی سے باہر پیرا شوٹ کی مدد سے چھلانگ لگا دیتا ہے۔ شاید جہاز دس ہزار فٹ سے نیچے تھا کہ ڈی کمپریشن نہیں ہوا۔ عمران کے پاس ریوالور تھا۔ اس کے علاوہ عمران کے ساتھیوں کے پاس بھی ریوالور تھے۔ انہوں نے شاید "ٹن" ہو کر پائلٹ کو جہاز بیک کرنے کو بھی کہا تھا۔ حقیقتاً کہانی میں یہ لفظ درج ہیں کہ انہوں نے پائلٹ کو جہاز بیک کرنے کو کہا۔ صفدر صاحب نے پائلٹ سے جہاز بیک کرنے کو کہا کہ ایک بندہ ان کی کوئی ایسی قیمتی چیز لے گیا ہے جس کے لئے وہ پورے جہاز کو تباہ کر سکتے ہیں۔ اب چند ریوالوروں کی مدد سے صفدر صاحب کیسے پورا جہاز تباہ کریں گے، یہ اچھا سوال ہے جس کا جواب آپ کو خود سوچنا ہوگا۔

اسی سلسلے میں ماکا زونگا دوئم بھی موجود ہے جو مظہر کلیم ایم اے صاحب کی دوسری کتاب تھی۔ اس میں بھی اس سے زیادہ بڑی بونگیاں موجود ہیں۔ تاہم اس کے بارے ایک اور پوسٹ۔

Powered by Blogger.