Sunday, November 11, 2007

گملا پور کا آدم خور تیندوا

عام استوائی جنگلات میں تیندوے کا وجود عام ہے جبکہ شیر صرف ہندوستان کے جنگلات تک محدود ہے۔ شیر کی ہندوستان آمد زیادہ پرانی نہیں۔ تاہم تاریخی اعتبار سے تیندوے اور چیتے کی موجودگی ہندوستان میں بہت پرانی ہے۔

اپنی چھوٹی جسامت، کم طاقت اور انسان سے فطری خوف کے باعث تیندوے کو شیر سے کم تر درجے کا درندہ سمجھا جاتا ہے۔ شیر کے شکاری بھی اکثر انہی وجوہات کی بنا پر تیندوے کا ذکر قدرے حقارت سے کرتے ہیں۔ حتٰی کہ اگر تیندوے کو مجبور کیا جائے تو یہ محض کاٹنے، بھنبھوڑنے اور پنجے مارنے تک ہی محدود رہتا ہے۔ جبکہ شیر کے حملے کی داستان سنانے کے لئے چند ہی لوگ زندہ بچے ہیں۔

تاہم یہ عمومی رائے اس وقت تک توجہ کے قابل رہتی ہے جب تیندوا آدم خور نہ ہو۔ آدم خور بننے کے بعد تیندوا ایک بالکل ہی مختلف جانور بن جاتا ہے اگرچہ تیندوے کی آدم خوری اتنی عام بات نہیں ہے۔ آدم خور بننے کے بعد تیندوا ایک ایسی ہلاکت خیز مشین بن جاتا ہے جس کا مقصد صرف اور صرف نسل انسانی کی تباہی و بربادی رہ جاتا ہے۔ اس کی پھیلائی ہوئی تباہ کاری کسی بھی طرح آدم خور شیر سے کم نہیں ہوتی۔ اپنی چھوٹی جسامت کے باعث یہ شیر سے کہیں چھوٹی جگہ میں چھپ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ مکار اور نڈر بھی ہوتا ہے اور اپنی حفاظت کے لئے انتہائی محتاط ہوتا ہے۔ اس کی کھال کا رنگ اسے ماحول میں اتنا چھپا دیتا ہے کہ اسے دیکھنا کافی مشکل ہو جاتا ہے۔

گملا پور کا آدم خور ایک ایسا ہی جانور تھا۔ اس نے کل بیالیس افراد مارے۔ اس کی ذہانت ایک عام انسان کی ذہانت سے بڑھ کر تھی۔ اس کے بارے بہت سی پراسرار کہانیاں مشہور تھیں۔ خیر کچھ بھی ہو، اڑھائی سو مربع میل کے علاقے میں اس کی دہشت طاری تھی۔

اس سارے علاقے کی تمام بستیوں میں سورج غروب ہونے سے قبل ہی دروازے بند کر دیئے جاتے تھے۔ اکثر جگہوں پر تو مزید حفاظت کے خیال سے دروازے کے ساتھ ڈبے، اضافی لکڑیاں وغیرہ بھی لگا دی جاتی تھیں۔ اکثر گھروں میں لیٹرین نہیں ہوتی۔ وہ لوگ گھر کے پاس موجود کوڑے کرکٹ کے انبار کو ہی لیٹرین کا متبادل سمجھ لیتے ہیں۔

جوں جوں انسانی شکار مشکل ہوتا گیا، اس تیندوے کی مکاری اور چالاکی بڑھتی گئی۔ دو مختلف واقعات میں اس نے دیوار توڑ کر اپنے شکار کو اٹھا لیا جن کی چیخیں پورے گاؤں نے سنیں لیکن کسی کی مجال نہ تھی کہ مدد کو آتا۔ ایک بار جب وہ جھونپڑے کی دیوار کو نہ توڑ سکا تو وہ گھاس پھونس سے بنی چھت توڑ کر اندر گھس گیا۔ جب وہ اپنا شکار لے کر واپس چھت سے باہر نہ نکل سکا تو اس نے کمرے میں موجود بقیہ چار افراد کو بھی ہلاک کر دیا اور خود چھت کے سوراخ سے نکل کر فرار ہو گیا۔ یہ افراد میاں بیوی اور دو بچے تھے۔

دن کو ہی دیہاتی لوگ کچھ متحرک ہوتے تھے۔ لیکن دن میں بھی وہ جماعتوں اور مسلح صورت میں گھومتے تھے۔ تاہم ابھی تک تیندوے نے دن کے وقت کوئی بھی واردات نہیں کی تھی۔ صبح منہ اندھیرے اسے کئی مختلف مواقع پر دیکھا گیا تھا۔

اس صورتحال میں میں گملا پور پہنچا۔ مجھے اس تیندوے کے بارے میرے دوست جیپسن نے بتایا تھا جو ضلعی مجسٹریٹ تھا۔ ابتدائی گفتگو سے اندازہ ہوا کہ دیہاتی تیندوے سے اتنے خوفزدہ ہیں کہ وہ کچھ بھی نہیں بتائیں گے۔ یہ لوگ قدیم مشرقی توہم پرستی کا شکار تھے۔ ان کا خیال تھا کہ یہ تیندوا ایک مجسم شیطان ہے اور وہ اس کے خلاف کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ اگر وہ اپنے گھروں میں رک کر موت کا انتظار نہیں کر سکتے تو اس کا واحد حل علاقہ چھوڑ دینا ہے۔

جلد ہی مجھے اندازہ ہو گیا کہ ان لوگوں سے مدد کی توقع رکھنا فضول ہے۔ کئی لوگوں نے تو صاف کہہ دیا کہ اگر انہوں نے ایک لفظ بھی بتایا تو یہ شیطان سب سے پہلے انہی کو آن دبوچے گا۔ تاہم یہ افراد سرگوشیوں میں بات کرنے پر آمادہ تھے۔

اس رات میں نے گاؤں کے درمیان میں کرسی ڈالی اور اس پر بیٹھ گیا۔ میرے عقب میں ایک بارہ فٹ بلند مکان تھا۔ احتیاطاً میں نے اس مکان کی چھت اور منڈیر پر کانٹوں اور گوکھروؤں کی ایک موٹی تہہ بچھوا دی تاکہ تیندوا چھت پر سے مجھ پر حملہ نہ کر سکے۔ راتیں تاریک تھیں اور چاند کا کوئی امکان نہ تھا۔ تاہم مجھے یقین تھا کہ ستاروں کی روشنی اتنی تو ضرور ہوتی کہ وہ مجھے تیندوے کی موجودگی سے آگاہ کر دیتی۔

چھ بجے شام سے ہی تمام لوگوں نے گھروں میں گھس کر دروازے بند کر لئے اور میں کرسی پر اکیلا بیٹھا تھا۔ چائے کا تھرماس، کمبل اور کچھ بسکٹ میرے پاس تھے۔ بھری رائفل میری گود میں اور ٹارچ اور پائپ میرے ہاتھوں میں تھے۔ اضافی تمباکو اور ماچس بھی ہمراہ تھیں۔ دن نکلنے تک مجھے انہی کے ساتھ گزارا کرنا تھا۔

سورج غروب ہوتے ہی میں کافی پریشان ہوا کیونکہ ابھی ستاروں کو نکلنے میں کافی دیر تھی۔ اس کے علاوہ گاؤں کے مغربی جانب موجود پہاڑیاں قبل از وقت اندھیرے کا سبب تھیں۔ اگر وہ نہ ہوتیں تو ابھی سے اتنا اندھیرا نہ چھاتا۔

میں رائفل ہاتھ میں تیار لئے اور مسلسل تاریکی میں ادھر ادھر دیکھ رہا تھا کہ شاید تیندوا دکھائی دے جائے۔ مجھے اندازہ تھا کہ جنگلی جانور اور مویشی مجھے تیندوے کی موجودگی سے آگاہ کر دیں گے۔ پورے گاؤں پر موت کی سی خاموشی طاری تھی۔ صاف لگ رہا تھا کہ یہ سب لوگ میری آخری چیخیں سننے کے لئے بے تاب ہیں۔

وقت گذرتا رہا اور یکے بعد دیگرے ستارے نمودار ہوتے رہے۔ ساڑھے سات بجے تک اتنی روشنی ہو چلی تھی کہ میں گلی کے دونوں سروں تک صاف دیکھ سکتا تھا۔ میری ہمت بڑھ گئی۔ آدم خور کو متوجہ کرنے کے لئے میں نے وقفے وقفے سے کھانسنے کی کوشش کی۔ پھر کچھ دیر بعد اپنے آپ سے باتیں کرنا شروع کر دیں۔ مجھے امید تھی کہ اگر آدم خور نزدیک ہوا تو میری آواز سن کر لازماً ادھر کا رخ کرے گا۔

مجھے علم نہیں کہ آپ میں سے کسی نے خود کلامی اور بھی با آواز بلند کرنے کی کوشش کی ہو؟ چاہے وہ کسی آدم خور کو متوجہ کرنے کے لئے ہو یا پھر کسی اور وجہ سے۔ مجھے اندازہ تھا کہ میری خود کلامی سے دیہاتی لوگ کیا کچھ نہیں سوچ رہے ہوں گے۔ لیکن یقین جانیں کہ خود کلامی بلند آواز سے کرنا بہت مشکل کام ہے۔ خصوصاً جب آپ آدم خور کا بھی انتظار کر رہے ہوں۔

نو بجے رات تک میں نے سوچا کہ کیوں نہ گاؤں کا ایک چکر لگا لیا جائے۔ کسی قدر ہچکچاہٹ کے ساتھ میں نے خود کلامی جاری رکھتے ہوئے اپنی جگہ چھوڑی اور گلی کے دونوں سروں تک باری باری چکر لگایا۔ وقتاً فوقتاً اپنے عقب میں بھی دیکھ لیتا۔ جلد ہی مجھے اپنی حماقت کا بخوبی اندازہ ہو گیا۔ آدم خور کسی بھی مکان کی چھت، کوڑے کے ڈھیر یا پھر کسی بھی موڑ پر چھپا میرا انتظار کر رہا ہوگا۔ فوراً ہی میں نے اپنی چہل قدمی روک دی اور واپسی کا رخ کیا۔ جب اپنی کرسی پر بیٹھنے لگا تو اپنی بحفاظت واپسی پر خدا کا شکر ادا کیا۔

وقت بہت آہستگی سے گذرتا رہا۔ گھنٹے صدیوں کی طرح بیتتے رہے۔ اس وقت تک موسم کافی سرد ہو چلا تھا اور پہاڑیوں کی طرف سے کافی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ میں نے کمبل اوڑھا اور چند بسکٹ کھا کر ڈھیر سارا تمباکو بھی استعمال پی ڈالا۔ دو بجے تک مجھے نیند آنے لگی۔ میں پھر چائے اور بسکٹ سے فارغ ہو کر یخ بستہ پانی سے اپنے منہ پر ہلکے ہلکے چھینٹے مارے اور تھوڑی دیر تک اٹھک بیٹھک کی۔ اب میں پھر سے ہوشیار ہو گیا۔ ساڑھے تین بجے اچانک بادل گھر آئے اور اتنی تاریکی چھا گئی کہ گز بھر دور کی چیز بھی دکھائی نہ دیتی۔ اب میں بالکل تیندوے کے رحم و کرم پر تھا۔ میں نے ہر نصف منٹ کے بعد ٹارچ جلا کر ادھر ادھر ڈالنا شروع کر دی۔ مجھے اندازہ تھا کہ اس طرح میں تیندوے خبردار ہو سکتا ہے۔ مجھے اپنی جان بچانا زیادہ اہم لگا۔ یہ بھی امکان تھا کہ روشنی دیکھ کر تیندوا بھاگنے کی بجائے اسی طرف ہی آتا اور اس طرح مجھے اس پر فائر کرنے کا موقع مل جاتا۔ صبح تک یہی سلسلہ جاری رہا۔

چند گھنٹے میں نے اب سو کر گذارے اور پھر دوپہر کو دیہاتیوں سے سوال جواب شروع کئے۔ اس بار انہوں نے نسبتاً دوستانہ انداز میں جوابات دیئے۔ شاید اس کی وجہ میرا کل رات زندہ بچ جانا رہی ہو یا پھر میری خود کلامی کو وہ روحوں اور جن بھوتوں سے گفتگو سمجھ رہے ہوں۔ اب انہوں نے آدم خور کے بارے مزید معلومات مہیا کیں۔ آدم خور ایک بڑے علاقے میں سرگرم تھا اور وہ کسی جگہ شکار کر کے گم ہو جاتا اور پھر کہیں دور جا کر دوسرا شکار کرتا۔ اس نے کبھی بھی دو شکار ایک ہی جگہ مسلسل نہیں کیئے تھے۔ اس سے مجھے اندازہ ہوا کہ گملا پور کو ہی مستقل ٹھکانہ بنائے رکھنا بہتر ہے کہ یہاں تین ہفتوں سے کوئی واردات نہیں ہوئی تھی۔ اس طرح مجھے ادھر ادھر بھاگنا بھی نہ پڑتا۔ دوسرا یہ بھی اہم تھا کہ چیتا دن میں کبھی بھی نہیں دکھائی دیتا اس لئے جگہ جگہ مارے پھرنے سے ایک ہی جگہ ٹک کر اس کا انتظار کرتا۔ یہ بھی پتہ چلا کہ آدم خور کے اگلے دائیں پنجے میں کوئی نقص ہے جس کے باعث وہ زمین پر پاؤں پوری طرح نہیں رکھ سکتا۔ اس اطلاع کے باعث میں نے آگے چل کر آدم خور کے پنجوں کے نشانات بھی کامیابی سے پہچانے۔

دوپہر کا کھانا کھا کر میں نے رات کے لئے نیا منصوبہ بنایا۔ اس سے یقیناً مجھے کافی آرام ملتا اور کم خطرناک بھی ہوتی۔ اس کے مطابق ہم انسانی پتلا بنا کر اسے ایک کمرے میں رکھ دیتے اور کمرے کا دروازہ آدھا کھلا چھوڑ دیا جاتا۔ اسی کمرے میں دوسرے سرے پر لکڑی کے ڈبوں کے پیچھے میں چھپ جاتا۔ اگر آدم خور اندر آتا تو میں اسے آسانی سے نشانہ بنا سکتا تھا۔

میں نے یہ منصوبہ مقامی لوگوں کو بتایا تو یہ دیکھ کر میری حیرانی کی کوئی حد نہ رہی کہ وہ نہ صرف اس سے متفق ہوئے بلکہ کافی پرجوش بھی ہو گئے۔ جس مکان میں آدم خور نے چار افراد کو ہلاک کیا تھا، وہ میرے لئے مختص کر دیا گیا۔ انسانی پتلا بھی بنا دیا گیا جو تنکوں، ساڑھی، تکیئے اور صدری کی مدد سے بنایا گیا تھا۔ اسے دروازے کے سامنے نیم دراز حالت میں چھوڑ دیا گیا۔ اس کے پیچھے میں لکڑیوں کے کریٹوں کے پیچھے چھپ گیا۔ کمرہ دس فٹ لمبا اور بارہ فٹ چوڑا تھا۔ اتنے چھوٹے سے کمرے میں میری ناکامی کے امکانات بہت کم تھے۔ اسی طرح اگر آدم خور چھت سے داخل ہونے کی کوشش کرتا یا دیوار سے راستہ بناتا تو بھی میرے پاس اس سے نمٹنے کے لئے کافی وقت ہوتا۔ اس ڈرامے کو مزید حقیقت کا رنگ دینے کے لئے میں نے دونوں اطراف کے جھونپڑیوں کے مکینوں سے کہا کہ وہ رات بھر جتنی دیر ممکن ہو سکے مدھم آواز سے باتیں کرتے رہیں۔

اس تجویز پر یہ اعتراض ہوا کہ اس طرح آدم خور بازو والے کسی جھونپڑے میں داخل ہو تو کیا ہوگا۔ میں نے اس طرح کی صورتحال میں فوراً ان کی مدد کو پہنچنے کا وعدہ کیا۔ اس صورت میں میں نے انہیں عام انداز میں شور مچانے کو کہا تاکہ آدم خور خبردار نہ ہو۔ عام شور آدم خور نے بہت بار سنا ہوا تھا اور وہ اسے بالکل بھی اہمیت نہ دیتا تھا۔ اس طرح دونوں اطراف کے مکین بھی جاگتے رہتے۔

چھ بجے تک ہر چیز اپنی جگہ پر تیار تھی۔ سارے گاؤں کے لوگ اپنے اپنے گھروں میں دروازے مقفل کر کے پناہ لے چکے تھے۔ میرے والے جھونپڑے کا دروازہ ادھ کھلا تھا۔ سورج غروب ہوتے ہی تاریکی چھائی اور پھر کچھ دیر بعد تاروں کی روشنی میں وہ منظر صاف دکھائی دینے لگا جو دروازے کے کھلے حصے کے سامنے تھا۔ میرے بالکل سامنے ہی پتلا موجود تھا۔ وقتاً فوقتاً مجھے ساتھ والے گھروں سے لوگوں کی آوازیں سنائی دیتی رہیں۔

گھنٹوں پر گھنٹے گزرتے رہے۔ اچانک چھت سے کھڑکھڑاہٹ کی آواز سنائی دی۔ میں فوراً ہی چوکنا ہو گیا۔ لیکن یہ آواز کسی چوہے کی تھی۔ چوہا اچانک چھت سے فرش پر گرا اور پھر بھاگ کر میری طرف آیا اور میرے اوپر سے ہوتا ہوا دوبارہ چھت میں غائب ہو گیا۔ اب ہمساؤں کی آواز بند ہو چکی تھی جس سے مجھے اندازہ ہوا کہ وہ لوگ اس بات سے قطع نظر کہ آدم خور ان کے قریب بھی موجود ہو سکتا ہے، سو چکے ہیں۔

ساری رات میں جاگتا رہا۔ کبھی کبھار پائپ کا اکا دکا کش لگا لیتا یا پھر چائے کی چسکی سے گزارا کرتا۔ ساری رات چوہوں کی بھاگ دوڑ جاری رہی۔ صبح کی روشنی ہوتے ہی مٰں بے سدھ سو گیا۔

اگلی صبح بہتر نتائج کے لئے اور یہ سوچ کر کہ شاید آدم خور اس بار ادھر آئے، میں نے کل والی حرکت پھر دہرائی۔ اس بار رات کافی چونکا دینے والی نکلی۔ مجھے آج تک اس کی یاد نہیں بھولی۔

چھ بجے تک میں پھر اپنی جگہ پر تھا۔ آدھی رات تک سابقہ رات والی روٹین چلتی رہی۔ وہی ہمساؤں کی آوازیں، وہی چوہوں کی بھاگ دوڑ وغیرہ۔ دس بجے کے فوراً بعد تیز ہوا چل پڑی اور رفتہ رفتہ طوفان میں بدل گئی۔ آسمان پر طوفانی بادل چھا گئے اور کمرے کے دروازے سے اب مجھے کچھ بھی دکھائی نہ دیتا تھا۔ پھر جلد ہی بارش شروع ہو گئی۔ مجھے اندازہ تھا کہ تیندوے عموماً پانی کو پسند نہیں کرتے۔ اس لئے یہ تیندوا بھی کہیں دبکا ہوا بارش تھمنے کا انتظار کر رہا ہوگا۔ میں نے جھپکی لینے کی ٹھانی۔

بارش کے باعث مجھے ہمسائیہ گھروں کی آوازیں سنائی دینا بند ہو گئیں۔ انسانی پتلے کو گھورتے گھورتے مجھے نیند آ گئی۔

میں کتنی دیر سویا رہا، کہنا مشکل ہے۔ لیکن بہرحال کچھ نہ کچھ تو وقت گذرا ہی ہوگا۔ اچانک ہی میری آنکھ کھل گئی اور فوراً ہی اندازہ ہو گیا کہ کچھ گڑبڑ ہے۔ ایک عام بندہ جب نیند سے بیدار ہو تو اسے سنبھلنے میں کچھ نہ کچھ وقت لگتا ہے۔ میری جنگل کی تربیت کچھ اس طرح کی ہوئی تھی کہ بیدار ہوتے ہی مجھے صورتحال کا فوراً ادراک ہو جاتا ہے۔ بارش تھم چکی تھی اور کسی حد تک بادل بھی چھٹ چکے تھے۔ دروازے سے آنے والی روشنی اب کچھ دکھائی دینے لگی تھی۔ پتلا ویسے ہی نیم دراز حالت میں تھا۔ اچانک مجھے ایسا لگا کہ کچھ عجیب سی بات ہوئی ہے۔ پتلے نے حرکت کی اور اچانک نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ فوراً ہی چیتے کی غراہٹ سنائی دی۔ مجھے اب جا کر اندازہ ہوا کہ تیندوا نہ صرف کمرے میں داخل ہو چکا ہے بلکہ اسے پتلے کے جعلی ہونے کا بھی علم ہو چکا ہے۔ کمرہ اتنا تاریک تھا کہ تیندوے کا سایہ سا بھی تک نہ دکھائی دے رہا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ وہ زمین پر اتنا جھکا ہوا ہو کہ دکھائی نے دیا ہو۔

ٹارچ روشن کرتے ہی میں نے جست لگائی اور اپنی کمین گاہ سے نکلا۔ کمرہ خالی تھا۔ میں نے فوراً باہر نکل کر دونوں اطراف میں روشنی ڈالی لیکن موڑ تک گلی کے دونوں سرے خالی تھے۔ میں نے سوچا کہ تیندوا ابھی کہیں نزدیک ہی چھپا ہوا ہوگا اس لئے میں نے گلی کے ایک سرے تک چلنا شروع کر دیا۔ ہر موڑ، گھر یا کوڑے کے ڈھیر کے پاس سے بڑی احتیاط سے گذرتا۔ اگرچہ ٹارچ کی روشنی میں میں نے ہر ممکن جگہ چھان ماری لیکن وہ گم ہو چکا تھا۔ اب مجھے اندازہ ہوا کہ یہ درندہ کتنا مکار ہے۔ جونہی میری چھٹی حس نے مجھے نیند سے بیدار کیا، ویسے ہی تیندوے کی چھٹی حس نے اسے میری موجودگی کے بارے بھی نہ صرف خبردار کر دیا بلکہ یہ بھی بتا دیا کہ مقابلہ کسی عام انسان سے نہیں بلکہ ایسے شخص سے ہے جو اس کے خاتمے پر کمر بستہ ہے۔ شاید وہ میری ٹارچ کی روشنی نے اسے فرار ہونے پر مجبور کیا تھا اور وہ خاموشی اور آہستگی سے فرار ہو گیا۔ اس رات میں نے گملا پور کی تمام گلیاں چھان ماریں لیکن آدم خور جیسے آیا تھا ویسے ہی غائب ہو گیا۔

میں دل ہی دل میں اپنی غفلت پر سخت شرمندہ تھا کہ کیوں سو گیا اور ساتھ ہی ساتھ میں اس درندے کے خلاف اپنے آپ کو مزید تیار کر رہا تھا۔

اگلی صبح میں نے تیندوے کے پنجوں کے نشانات دیکھے جہاں سے وہ گاؤں میں داخل ہوا تھا۔ نرم کیچڑ میں یہ نشانات بالکل واضح تھے۔ پہلی بار ان کا معائینہ کرتے ہوئے میں نے اس کے اگلے دائیں پنجے کے نشانات کو بغور دیکھا۔ تیندوا اسے اس طرح رکھتا تھا کہ وہ محض ہلکا سا ہی زمین سے لگتا تھا اور اس نشان کو بطور پنجہ نہیں پہچانا جا سکتا تھا۔ یہ بات صاف ہو گئی کہ ماضی میں کسی حادثے کے باعث تیندوے کو آدم خوری پر مائل ہونا پڑا۔ آگے چل کر جب میں نے آدم خور کے پنجے کو دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ جانور ان دنوں پھیلی ہوئی ایک وبائی بیماری سے ہلاک شدگان کی لاشوں کو کھانے کا عادی تھا۔ پنجہ زخمی ہونے کے بعد اسے موقع مل گیا اور وہ آدم خوری کرنے لگا۔

مجھے اب تک یہ بھی اندازہ ہو چکا تھا کہ اس درندے میں کم و بیش ایک عام انسان جتنی سوجھ بوجھ کی صلاحیت پائی جاتی ہے اور وہ شاید ہی سابقہ رات کے تجربے کے بعد گملا پور کا رخ کرے۔

مجھے اب اپنا ٹھکانہ تبدیل کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اس بار میں نے اچھی طرح سوچ سمجھ کر دیوار بٹہ نامی گاؤں کا رخ کیا۔ یہ یہاں سے اٹھارہ میل دور اور پہاڑیوں کی دوسری طرف تھا۔ راستے میں پانی کی ایک نالی تھی جس کے کنارے ایک بڑے نر شیر کے پنجوں کے نشانات ظاہر تھے۔ یہ نشانات اتنے تازہ تھے کہ ان میں سے پانی ابھی بھرنا شروع ہوا تھا۔ خیر ابھی تو مجھے تیندوے کا پیچھا کرنا تھا۔ میں دیوار بٹہ شام پانچ بجے پہنچا۔

یہاں کے باشندے اپنے گھروں کے دروازے مقفل کرنے ہی والے تھے کہ میں پہنچا۔ بمشکل ہی ان سے میں مختصر بات کر سکا۔ ان کا خیال تھا کہ آدم خور کا اس طرف چکر اب کسی بھی وقت متوقع تھا کہ وہ یہاں کافی دنوں سے نہیں آیا تھا۔ اس کا پچھلا چکر مہینے بھر پہلے لگا تھا۔ آدم خور آج تک کسی جگہ ایک ماہ تک گم نہیں رہا تھا۔

میں نے فوراً ہی گاؤں کے سب سے بلند مکان کی دیوار کے ساتھ ٹیک لگائی اور اس سے قبل چھت پر کافی سارے کانٹے بچھا دیئے تاکہ عقب اور اوپر سے حملے سے بچ سکوں۔ یہ کانٹے دیہاتیوں نے قریب ہی کے کھیت سے اٹھائے تھے اور میں رائفل تانے ان کی نگرانی کرتا رہا۔

گملا پاور کی نسبت یہ بہت چھوٹا سا گاؤں تھا۔ مجھے اندازہ تھا کہ جنگلی پرندوں اور جانوروں نے مجھے تیندوے کی آمد سے قبل بخوبی آگاہ کر دینا ہے۔ میرا کام صرف ان آوازوں کو پوری توجہ سے سننا ہے۔

وقت بہت تیزی سے گزرتا رہا اور جلد ہی ہلال افق پر دکھائی دینے لگا۔ جنگلی مرغ کی آواز کبھی کبھار سنائی دے جاتی۔ مور بھی بولتے رہے۔ گاؤں کی یہ گلی غلاظت اور گندگی سے بھری ہوئی تھی۔ تاروں کی مدھم روشنی میں بمشکل ہی گلی دکھائی دے رہی تھی۔ ساڑھے آٹھ بجے ایک سانبھر بولا اور پھر بولتا ہی چلا گیا۔ لازماً اس نے کسی درندے کو دیکھا ہوگا۔ اب وہ درندہ تیندوا ہے یا پھر شیر، اس کے بارے تو وقت ہی بتاتا۔

اب سانبھر چپ ہو گیا۔ پندرہ منٹ بعد مجھے شیر کی ہلکی سی غراہٹ سنائی دی اور پھر خاموشی چھا گئی۔ یہ شکار کی تلاش میں نکلے ہوئے شیر کی عام بولی تھی۔ اس میں جنگل کے جانوروں کے تنبیہ پوشیدہ تھی کہ جنگل کا بادشاہ شکار پر نکلا ہوا ہے۔

وقت گزرتا رہا۔ اچانک میں نے گلی کے سرے پر حرکت محسوس کی۔ بھری ہوئی رائفل کو اٹھا کر میں نے نشانہ لیا اور قریب آنے کا انتظار کرتا رہا۔ کیا یہ تیندوا ہی ہے؟ کیا آدم خور تیندوا اس طرح کھلے عام گلی میں بیچوں بیچ عام رفتار سے چلتا ہوا میرے پاس آتا؟ یہ جانور کافی چھوٹا اور کمزور دکھائی دیتا تھا۔ بیس گز کے فاصلے سے میں نے ٹارچ روشن کی جو رائفل کی نال پر فٹ تھی۔

طاقتور ٹارچ کی روشنی نے پوری گلی کو روشن کر دیا۔ یہ جانور ایک عام کتا نکلا جو سردی اور بھوک سے سکڑا ہوا اور ٹھٹھرتا ہوا میری طرف آ رہا تھا۔ روشنی ہوتے ہی اس نے رک کر اس کی طرف دیکھا اور اپنی دم ہلانے لگا۔

اس تنہائی میں کتے کی آمد کو میں نے تہہ دل سے خوش آمدید کہا۔ اسے بلانے کے لئے میں نے دو بار چٹکی بجائی۔ دم ہلاتا ہوا وہ میرے پاس پہنچا۔ میں نے اسے چند بسکٹ دیئے جو اس نے فوراً کھا لئے اور ممنونیت سے میری طرف دیکھنے لگا۔ شاید وہ کئی دن کا بھوکا تھا۔ پھر وہ میرے قدموں میں دبک کر سو گیا۔

وقت گذرتا رہا اور نصف شب آ پہنچی۔ ایک بڑے الو کی آواز جنگل کے سرے سے آئی اور ماحول خاصا پراسرار ہو گیا۔

ایک بجا، دو بجے اور پھر تین۔ میں بار بار ادھر ادھر گھورتا رہا۔ خوش قسمتی سے آسمان بالکل صاف تھا اور تاروں کی مدھم روشنی بھی کافی دور تک منظر دکھا رہی تھی۔

اچانک ایک نامعلوم پرندے کی آواز آئی۔ صاف لگ رہا تھا کہ اس نے تیندوے کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ کتا بھی میرے قدموں میں بیدار ہو کر اچانک ہوشیار ہو گیا۔ منٹ پر منٹ گذرتے رہے اور اچانک کتا اب پوری طرح کھڑا ہو گیا۔ اس کے کان کھڑے تھے اور پورے بدن پر کپکپی طاری تھی۔ اس کے حلق سے ہلکی سے غراہٹ کی آواز نکلی۔ میں نے اس کی نظروں کا پیچھا کیا۔ وہ گاؤں کے درمیان سے آنے والی طرف گلی کے موڑ کو دیکھ رہا تھا۔

میں نے اب اپنی پوری توجہ ادھر مرکوز کر دی۔ اچانک میں نے گلی کے سرے پر ایک سائے کو حرکت کرتے دیکھا جو اپنی جگہ سے ہٹ کر میری جانب والے کنارے پر آ گیا تھا۔ چند لمحے بعد پھر حرکت ہوئی، اس بار نزدیک تر۔

میں نے ٹارچ کے بٹن پر انگوٹھا رکھ دیا۔ چند منٹ مزید گزرے اور میں نے ساے کو ایک مکان کی چھت کی طرف جست لگاتے دیکھا۔ اس بار فاصلہ کوئی بیس گز رہا ہوگا۔ مجھے اندازہ ہوا کہ تیندوے نے براہ راست سامنے سے آنے کی بجائے میرے اوپر چھت سے حملہ کرنے کی ٹھانی ہے۔ گلی کے تمام مکانات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے تھے۔

میں فوراً کھڑا ہو کر دیوار کے ساتھ لگ گیا۔ یہاں منڈیر تقریباً ڈیڑھ فٹ آگے نکلی ہوئی تھی۔ میری انگلی رائفل کے ٹریگر پر تھی اور انگوٹھا ٹارچ پر۔

چند سیکنڈ بعد مجھے اندازہ ہوا کہ تیندوا چھت پر موجود کانٹوں کو ہٹانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ناکام ہو کر وہ بالکل خاموش ہو گیا۔ مجھے اب اس کے نئے مقام کا اندازہ نہ تھا۔

مزید پندرہ منٹ شدید پریشانی میں گزرے اور میں بار بار ہر طرف دیکھتا رہا کہ شاید تیندوا کسی اور جانب سے حملہ نہ کر دے۔ کتا ایک بار پھر میرے قدموں سے نکل کر گلی کے درمیان کی طرف بھاگا اور پھر منہ اٹھا کر میرے پیچھے والے مکان کے کنارے کی طرف بھونکنےھ لگا۔

اس کی اس حرکت نے میری جان بچا لی۔ پانچ سیکنڈ بعد ہی چیتا اس کنارے سے نکل کر میری طرف جھپٹا۔ ٹارچ روشن کرتے ہوئے میں نے رائفل بمشکل کولہے تک اٹھائی اور فائر کر دیا۔ اعشاریہ 405 بور کی گولی تیندوے کو لگی لیکن چونکہ وہ جست لگا چکا تھا، میں نے فوراً ہی ایک جانب چھلانگ لگائی۔ تیندوا مکان سے ٹکرا کر گر گیا۔ اس دوران میں نے مزید دو گولیاں اس کے جسم میں اتار دیں۔

تیندوا اپنی جگہ پر ہی پڑا رہا اور اس کے جسم پر لرزہ طاری تھا۔ اس کے جبڑے کھلتے بند ہوتے رہے۔ میرے نئے دوست یعنی اس کتے نے فوراً بھاگ کر تیندوے کے گلے پر اپنے دانت جما دیئے۔

اس طرح وہ مکار تیندوا اپنے انجام کو پہنچا جس کی مکاری کو شاید ہی کوئی دوسرا درندہ پہنچ سکے۔

اگلی صبح کھال اتارتے ہوئے اس کے اگلے دائیں پنجے سے گولی کی بجائے سیہہ کے دو کانٹے نکلے۔ دو انچ بھر اندر دھنسے ہوئے تھے اور پھر ٹوٹ گئے تھے۔ یہ کافی پرانے لگتے تھے کہ ان کے گرد ہڈی پھر سے اپنی جگہ پیدا ہو گئی تھی۔ اس سے آدم خور اپنے پنجے کو زمین پر نہ لگا سکتا تھا اور چلتے وقت لنگڑاتا تھا۔

اس کتے کو میں گھر لایا اور نہلا دھلا کر کھانا دیا اور اس کا نام "نیپر" رکھا۔ کئی سال سے یہ میرا قابل اعتماد رفیق ہے۔ اس نے چند بسکٹوں کے بدلے میری جان بچائی تھی۔

Saturday, November 3, 2007

تگراٹھی کے شیر

اگر میسور کی ریاست میں شموگا کے ضلع کی مغربی سرحد کی طرف سفر کریں تو بنگلور اور اس کے گرد و نواح کی نسبت یہاں کے مناظر اچانک ہی بدل جاتے ہیں۔ یہاں آپ ہر طرف سے سدا بہار جنگلات میں گھر جاتے ہیں جو برساتی نالوں سے سیراب ہوتے ہیں۔ یاں بارش کی سالانہ اوسط 120 انچ سے زیادہ ہے۔ شموگا اور اس کے مغرب میں سالانہ بارش 250 انچ سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ اگمبے اور اس کے مغرب میں چیل کے بلند و بالا درخت ہیں جن کی چوٹیاں آسمان کو چھوتی نظر آتی ہیں۔ درختوں پر کائی اور فرن وغیرہ عام ملتے ہیں۔ سبزے کی یہاں اس خطے میں بہتات ہے۔ یہاں کانٹے دار جنگلات نہیں پائے جاتے۔ ہر ممکن جگہ پر سبزہ اور گھاس اگی ہوتی ہے۔ جھینگر اور مینڈک کے سوا کسی جانور کی آواز سنائی دینا محال ہے۔ درختوں کی نچلی شاخوں سے لٹکی ہوئی جونکیں عام ہیں۔ کسی بھی جاندار کے قریب سے گزرنے پر یہ اس سے چمٹ جاتی ہیں۔ کپڑوں کے اندر بھی گھس جاتی ہیں اور خون چوسنا شروع کر دیتی ہیں۔ آپ کو ان کی موجودگی کا علم تک نہیں ہوگا کہ ان کے کاٹنے سے درد نہیں ہوتا۔ نظر پڑنے پر یا رستے ہوئے خون کے ان کی کارگزاری کا پتہ چل سکتا ہے۔ اگر جونک کو خون چوسنے کے دوران نوچنے کی کوشش کی جائے تو اس جگہ پر ایک بڑا سا زخم بن جاتا ہے۔ اگر جونک پر تھوڑا سا نمک یا پھر تمباکو کا عرق لگا دیا جائے تو یہ فوراً ہی الگ ہو جاتی ہیں۔ اس طرح بننے والا زخم معمولی نوعیت کا ہوتا ہے اور جلد ہی بھر جاتا ہے۔

یہ علاقہ کنگ کوبرا کا بھی مسکن ہے۔ کنگ کوبرا کوبرا کے خاندان کا سب سے بڑا سانپ ہے۔ اس کی لمبائی پندرہ فٹ کے لگ بھگ ہوتی ہے۔ اس کا رنگ گہرا زیتونی اور جسم پر ہلکے پیلے سے دائرے بنے ہوتے ہیں۔ اس کے سر پر کوئی نشان نہیں ہوتا۔ بڑی جسامت کے برعکس اس کی رفتار بہت تیز ہوتی ہے۔ اس کی خوراک دوسرے سانپ ہوتے ہیں۔ یہ بہت بد مزاج ہوتا ہے۔ انسان کو دیکھتے ہی حملہ کر دیتا ہے۔ انڈوں پر بیٹھی سپنی زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔ میرا اس سانپ سے دو بار آمنا سامنا ہوا ہے۔ ایک بار جب میں اپنے اکیوریم کے لئے ایک نایاب قسم کی مچھلی تلاش کر رہا تھا اور دوسری بار پھولوں کے ایک کنج کو دیکھتے ہوئے۔ دونوں بار ہی مجھے دیکھ کر یہ سانپ فرار ہو گئے۔

اونچے درختوں کی چوٹیاں نہایت خوبصورت پھولوں کا مسکن ہیں۔ یہ پھول مختلف بیلوں کے بھی ہو سکتے ہیں اور ان درختوں کے اپنے بھی۔ گرمیوں میں گلابی، پیلے، سفید غرض لاتعداد قسم کے رنگوں کے پھول عجب بہار دکھاتے ہیں۔

یہاں اس ضلع میں دریائے شیراوتی بھی موجود ہے۔ یہاں اس کی چار شاخیں ہیں۔ جوگ کے مقام پر یہ دریا ایک ساڑھے نو سو فٹ بلند آبشار کی مانند گرتا ہے۔ یہاں چاندنی رات میں چاند کی روشنی سے بننے والی کہکشاں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔

تگراٹھی کا گاؤں ساگر قصبے سے گیارہ میل دور اور جنوب مشرق میں واقع ہے۔ یہ سدا بہار جنگلات کی مشرقی سرحد پر واقع ہے۔ یہاں کاشتکاری زوروں پر ہے۔ یہاں کی مٹی انتہائی زرخیز اور بارش بکثرت ہوتی ہے۔ اس لئے یہ جگہ زراعت کے لئے انتہائی پرکشش اور منافع بخش ہے۔ قدرتی گھاس بھی کثرت سے اگتی ہے اور زرعی زمینوں کو چھوڑ کر ہر ممکن جگہ پر اگتی ہے۔ دن کے وقت گاؤں سے مویشی یہاں چرنے کے لئے بھیجے جاتے ہیں۔

جنگلی بھینسے سے بڑے جانور یہاں کم ہی ملتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ گھنے جنگلات، پسو اور جونکیں ہیں۔ ابتدا میں چرندوں کی کمی کی وجہ سے یہاں شاید ہی کوئی درندہ پایا جاتا ہو۔ لیکن کاشتکاری اور چراگاہوں میں اضافے اور نئے مویشیوں کی تعداد جوں جوں بڑھ رہی ہے، درندوں کی تعداد بھی بڑھتی جا رہی ہے۔

تگراٹھی بھی ایک ایسا ہی علاقہ تھا۔ میں اس علاقے میں اکثر آتا جاتا رہتا تھا اور مجھے کبھی بھی چار سے زائد شیروں کی اطلاع نہیں ملی۔ فروری 1939 میں مجھے معلوم ہوا کہ ایک ہی دن میں 8 مویشی مارے گئے ہیں۔ یہ تمام ہلاکتیں تگراٹھی کے آس پاس ہی ہوئی تھیں۔ لازما یہ 8 مختلف درندوں کا کام تھا۔

8 شیروں کی موجودگی کے باعث یہاں تیندوے اور چیتے نہ ہونے کے برابر تھے۔ جو تھے ان کا گزارہ آوارہ کتوں، بکریوں اور کبھی کبھار مرغیوں پر تھا۔ اگر شیروں کو کہیں چیتا دکھائی دے جائے تو وہ اسے مار کر کھا بھی جاتے ہیں۔

چیتل کے علاوہ اس جگہ شاید ہی کوئی اور جنگلی جانور ملتا ہو۔ یہاں کے تقریباً تمام ہی شیر لاگو یعنی مویشی خور ہیں۔ ان کی اکثریت بہت طاقتور اور موٹی ہوتی ہے جو کہ اس شیر سے مختلف ہوتے ہیں جس کا گزارا حقیقتاً جنگلی چرندوں پر ہوتا ہے۔

میں اب آپ کو شام راؤ باپت کی کہانی سناتا ہوں کہ اس نے انہی شیروں میں سے ایک شیر کو کیسے اپنے گھر کے باغیچے میں ہی ہلاک کیا۔ شام راؤ بائیس برس کا ایک نوجوان ہے اور اپنے والدین کی اکلوتی اولاد۔ اس نے گھر اور اس کے ساتھ موجود زرعی زمین کا نظام بخوبی سنبھالا ہوا ہے۔ اسے اپنے کام سے حقیقی معنوں میں محبت ہے۔ اس کے کھیتوں میں چاول، راگی کی فصلیں اور ناریل اور پام کے درخت ہیں۔ ان درختوں پر انگوروں کی بیلیں چڑھی ہوئی ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ بہت سارے مویشیوں کا مالک بھی ہے۔ وہ حقیقی معنوں میں ایک خوشحال زمیندار تھا۔

ایک دن ایک موٹے شیر نے شام راؤ کے خوشحال گھر سے خراج وصول کرنے کا سوچا۔ یکے بعد دیگرے شام راؤ کے مویشی اس کا شکار ہونے لگے۔ شام راؤ کے پاس ایک پرانی بندوق بھی تھی۔ اس نے بندوق میں گولی والا کارتوس بھرا اور شیر کا انتظار کرنے کے لئے ایک جانور کی لاش کے ساتھ درخت پر بیٹھ گیا تاکہ شیر پلٹے اور وہ اسے گولی مار سکے۔ شیر بھی ایک کایاں نکلا اور اس نے شکل نہ دکھائی۔ شاید وہ پہلے کسی شکاری کی گولی کھائے ہوئے تھا۔

اب شیر کی ہمت بڑھ چکی تھی۔ ایک رات کو وہ شام راؤ کے گھریلو باغیچے کی باڑ پھلانگ کر اندر داخل ہوا اور باڑے کے گیٹ پر لگے بانس کو ہٹانے کی کوشش کرنے لگا۔ اندر بند مویشیوں نے اچھا خاصا ہنگامہ برپا کر دیا۔ شام راؤ کی آنکھ اس ہنگامے سے کھل گئی۔ اس کے باہر نکلنے سے قبل ہی شیر فرار ہو گیا۔

اگلی رات کو شام راؤ نے باڑے کی چھت پر ایک محفوظ پناہ گاہ بنا کر شیر کا انتظار کرنے کی ٹھانی۔ رات کو 10 بجے شیر آیا اور دروازے کو کھرچنے لگا۔ شام راؤ نے کوئی فٹ بھر کے فاصلے سے اس پر بندوق کی دونوں نالیں خالی کر دیں۔ شیر بغیر کوئی آواز نکالے وہیں ڈھیر ہو گیا۔ یہ نہایت فربہہ اور مویشی خور شیر کی بہترین مثال تھا۔

منظر بدلتا ہے۔ اب ساڑھے گیارہ کا وقت ہے اور خوب دھوپ نکلی ہوئی ہے۔ میں اپنی بیوی کے ہمراہ فارسٹ بنگلے میں ہوں۔ یہ بنگلہ تگراٹھی سے اڑھائی میں دور ہے۔ دوپہر کا کھانا قبل از وقت تیار ہے اور میری بیوی چند سینڈوچ تیار کر رہی ہے۔ اچانک بنگلے سے متصل جنگل سے کاکڑ (ایک قسم کا ہرن جس کی آواز بھونکنے سے مشابہہ ہوتی ہے) کی آواز آئی۔ یہ آواز مسلسل آتی رہی۔ میں نے فوراً بوٹ پہنے اور رائفل اٹھائے باہر نکلا۔ فائر لائن کو عبور کر کے میں جنگل میں گھسا۔ کاکڑ ابھی تک بولے جا رہا تھا۔ میں ہر ممکن کوشش کر رہا تھا کہ اس تک کم سے کم وقت میں اور بغیر شور کئے پہنچ جاؤں۔ جلد ہی میں اس جگہ آ پہنچا جہاں کاکڑ موجود تھا۔ اس کا رخ سامنے کی طرف تھا اور مسلسل بولے جا رہا تھا۔ میں دوبارہ جنگل میں گھسا تاکہ دوسری طرف سے چکر کاٹ کر اس طرف جا سکوں جس طرف کاکڑ دیکھ کر شور کر رہا تھا۔ یہاں ایک جگہ ٹیک کے درختوں کا گھنا جھنڈ تھا۔ ٹیک کے پتے زمین پر موجود تھے۔ اگر ان پر پیر پڑتا تو بہت زیادہ شور پیدا ہوتا۔ اس لئے میں رک گیا اور ایک بہت بڑے ٹیک کے ہی درخت کے تنے کے پیچھے چھپ گیا اور سامنے دیکھنے لگا۔ اچانک کچھ فاصلے پر حرکت ہوئی۔ میں نے پوری توجہ ادھر مرکوز کی۔ ایک شیر، بالکل بے خبر پشت کے بل سو رہا تھا۔ اس کی دم بار بار ہل رہی تھی۔ دم کے ہلنے سے مجھے اس کی موجودگی کا علم ہوا۔

سوئے ہوئے شیر کو ہلاک کرنا شکار کی روح کے خلاف ہوتا۔ دوسرا مجھے اس شیر سے کوئی دشمنی بھی نہیں تھی۔ میں نے رائفل جھکا کر درخت سے ٹیک لگائی اور شیر کو دیکھنے لگا۔ شیر کوئی بیس منٹ تک مزید سوتا رہا۔ اس کے بعد اچانک بنگلے کی جانب سے میری بیوی کی آواز آئی جو مجھے کھانے کے لئے بلا رہی تھی۔ شیر فوراً اپنی نیند سے بیدار ہوا اور نیم وا آنکھوں سے بنگلے کی طرف دیکھنے لگا۔

خاموشی سے میں اس کے سامنے نکل آیا۔ میری رائفل گولی چلانے کے لئے تیار حالت میں تھی۔ میری آمد کی آہٹ سن کر شیر نے فوراً رخ بدلا اور نہایت حیرت سے میری طرف دیکھنے لگا کہ یہ انسان اتنی خاموشی سے اس کے اتنے قریب پہنچ گیا۔

پھر اس نے ہلکی سی میاوں کی اور پھر مڑ کر جنگل کی طرف چل پڑا۔ میں نے اسے جانے دیا۔ جلد ہی وہ نظروں سے اوجھل ہو گیا۔

ایک دوسرے موقع پر میں اور میری بیوی رات کے وقت جنگل کی سیر کرنا چاہ رہے تھے۔ ہم نے ایک بیل گاڑی کرائے پر حاصل کی۔ رات کے وقت ہم جنگل میں روانہ ہوئے۔ ہمارا پروگرام ٹارچ کی روشنی میں جنگل کا مشاہدہ کرنے کا تھا۔ ہم ابھی بنگلے سے میل بھر ہی گئے ہوں گے کہ اچانک میری بیوی کی ٹارچ کی روشنی میں دو روشن آنکھیں دکھائی دیں۔ یہ آنکھیں جنگل میں کافی دور تھیں۔ ہم نے بیل گاڑی رکوائی اور نیچے اتر کر اس طرف چل پڑے۔ میری بیوی کی ٹارچ کا رخ مسلسل اسی طرف تھا جہاں آنکھیں دکھائی دے رہی تھیں۔ میری بیوی ٹارچ جلائے آگے آگے اور میں رائفل چھتیائے پیچھے پیچھے تھا۔ اب تک وہ آنکھیں گم ہو چکی تھیں۔ ہم نے وہاں ایک پگڈنڈی دیکھی اور اس پر چل پڑے۔ تھوڑی دیر بعد وہ آنکھیں پھر چمکیں۔ خوش قسمتی سے یہاں گھاس وغیرہ بالکل نہ تھی اور آسانی سے اس طرف جا سکتے تھے۔ ابھی ہم چند ہی قدم بڑھے ہوں گے کہ جھاڑی سے شیرنی نکل آئی۔ اس نے پہلے تو ہمیں دیکھا پھر مڑ کر جھاڑی کی طرف، جہاں سے وہ نکلی تھی۔ مجھے بہت عجیب لگا۔ اس کےپیچھے اس کے دو بچے بھی نکل آئے اور ماں سے لپٹ گئے۔

شیرنی ہمیں چند لمحوں تک دیکھتی رہی اور پھر جنگل کی طرف چل پڑی۔ ساتھ ہی اس نے ہلکی سی میاؤں کی آواز بھی نکالی جو شاید بچوں کو بلانے کا اشارہ تھا۔ بچے بھی فوراً اس کے پیچھے چل پڑے اور جلد ہی وہ نظروں سے اوجھل ہو گئے۔

میری بیوی نے ٹارچ اسی طرف جلائے رکھی کہ شیرنی پلٹ نہ آئے۔ اچانک ہمیں دوسری طرف سے ہلکی سی غراہٹ سنائی دی۔ ہم لرز گئے۔ ہمارے سامنے اب ایک بڑا نر شیر موجود تھا۔ شاید یہ پورا خاندان پیاس بجھانے ندی پر آیا ہوا تھا۔ اتنے چھوٹے بچوں کے ساتھ شیرنی عموماً نر شیر سے الگ ہی رہتی ہے کیونکہ نر عموماً چھوٹے بچوں کو مار دیتا ہے۔

اب صورتحال کافی گھمبیر ہو چکی تھی۔ نر یا مادہ، کسی بھی طرف سے حملے کا امکان بڑھ چکا تھا۔ میری بیوی نے کافی ہمت کا مظاہرہ کیا اور ثابت قدم رہی۔ نر نے ہلکی سی غراہٹ کے ساتھ حرکت کی اور اس طرف چل پڑا جہاں اس کا بقیہ خاندان گیا تھا۔

اس طرح یہ صورتحال، جس کا انجام کافی بھیانک بھی ہو سکتا تھا، بخوبی سنبھل گئی۔ بیچارہ گاڑی بان گاڑی میں اکیلا تھا اور اس نے شیروں کی آوازیں سن لی تھیں۔ پھر شاید اس کے بیلوں نے شیروں کی بو محسوس کر لی یا پھر ان کی غراہٹ سن لی اور گاڑی کے ساتھ ہی سر پٹ دوڑے۔ آگے چل کر راستہ ایک ندی سے گزرتا ہے۔ یہاں آ کر پانی اور کیچڑ میں بیل گاڑی پھنس گئی۔ اب گاڑی بان نے خوف سے چلانا شروع کر دیا اور ساتھ ہی بیل بھی شیروں کی وجہ سے ڈکرانے لگے۔ ہم یہ سمجھے کہ شیروں نے بیل گاڑی پر حملہ کر دیا ہے۔ ہم فوراً اس طرف بھاگے۔ وہاں جا کر ہمیں اندازہ ہوا کہ سب خیریت ہے۔ صرف گاڑی بان حد سے زیادہ خوفزدہ تھا۔ ہمیں خوشی ہوئی کہ شیروں نے گاڑی بان یا پھر بیلوں سے الجھنے کی کوشش نہیں کی تھی۔

میسور میڈیکل سروس کا میرا ایک دوست ڈاکٹر سٹینلے کو اس کے محکمہ کی طرف سے تگراٹھی بھیجا گیا تھا کہ یہاں ملیریا اب وبائی صورت اختیار کر چکا تھا۔ اکثر مقامی باشندے اس کی لپیٹ میں تھے۔ یہ ڈاکٹر بہت منچلا تھا اور اسے شیروں کے شکار کا کافی شوق تھا۔ اس نے اس دوران کئی شیر بھی مارے تھے۔ ایک رات اسے ایک زچگی کے لئے بلاوا آیا۔ اسے بیلندور نامی وادی جانا تھا۔ اپنے پیشے سے عشق کرنے والا ڈاکٹر فوراً دواؤں اور اوزاروں والا بیگ، اپنی بندوق، پانچ سیل والی ٹارچ اور پٹیاں وغیرہ لے کر بیل گاڑی میں سوار ہوگیا۔

ابھی وہ راستے میں ہی تھا کہ ایک شیر نے چھلانگ لگا کر سڑک عبور کی اور کنارے ہی بیٹھ کر گاڑی کو گزرتے ہوئے دیکھنے لگا۔ سٹینلے نے بندوق سے گولی والا کارتوس چلایا۔ گولی کھاتے ہی شیر اچھلا اور دھاڑتا ہوا جنگل میں گم ہو گیا۔

ڈاکٹر نے زیادہ توجہ نہ دی اور آگے بڑھ گیا۔ اس نے زچہ کی مشکل دور کی اور رات زچہ بچہ کے ساتھ گزاری۔ اگلی صبح وہ ایک مقامی چھوٹے سے لڑکے کو ساتھ لے کر پلٹا۔ اس نے گاڑی بان کو اس جگہ چلنے کو کہا جہاں اس نے رات کو شیر پر گولی چلائی تھی۔

اس جگہ پہنچ کر اس نے دیکھا کہ وہاں شیر کا خون کافی مقدار میں بکھرا ہوا تھا۔ ڈاکٹر نے پیچھا کرنے کی ٹھانی۔ گاڑی بان نے عذر کیا کہ بیل اکیلے نہیں چھوڑے جا سکتے۔ ڈاکٹر لڑکے کے ساتھ ہی اس طرف چل پڑا۔ تھوڑا آگے چل کر انہیں شیر زمین پر پڑا ہوا دکھائی دیا۔ ڈاکٹر سمجھا کہ شیر مر چکا ہے۔ اس نے یقین کرنے کے لئے LG کا کارتوس شیر کی پچھلی ران پر چلایا۔ کارتوس لگتے ہی شیر اچھلا اور ڈاکٹر پر حملہ کر دیا۔ ڈاکٹر نے فوراً ہی شیر کے منہ میں دوسری نالی سے گولی چلائی۔ اگلے ہی لمحے شیر ڈاکٹر پر تھا اور اس نے ڈاکٹر کی کھوپڑی پر سے کافی ساری کھال نوچ لی تھی۔ اب لڑکا بیچارہ چیختا ہوا بھاگا۔ اب شیر نے ڈاکٹر کو چھوڑا اور لڑکے پر حملہ کر دیا۔ اس نے لڑکے کو پہلو سے جا پکڑا۔ ڈاکٹر نے اپنے زخم کی پروا کئے بغیر بندوق کو دوبارہ بھرا ہی تھا کہ شیر لڑکے کو چھوڑ کر فرار ہو گیا۔

لڑکا بیچارہ بری طرح زخمی تھا۔ اس کے پہلو، کمر اور سینے پر زخم تھے۔ تین پسلیاں بھی ٹوٹ چکی تھیں۔ ڈاکٹر نے اپنی پھٹی ہوئی قمیض سے لڑکے کے لئے پٹیاں بنا کر اس کے زخم باندھے اور پھر اسے کمر پر لاد کر بیل گاڑی تک پہنچا۔ وہاں سے وہ سترہ میل دور ساگر کی طرف چلے۔ ساگر سے انہوں نے شموگا کا رخ کیا جو پینتیس میل مزید دور تھا۔ شموگا میں ضلعی بڑا ہسپتال تھا۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ لڑکا اور ڈاکٹر، دونوں بچ گئے۔ ڈاکٹر کو اس کے افسران بالا سے اچھی طرح ڈانٹ پھٹکار پڑی کہ وہ بطور ڈاکٹر ہی اپنا کام جاری رکھے اور شیروں کا شکاری بننے کی کوشش نہ کرے۔

ان دونوں کے بچ جانے کی وجہ دراصل شیر کا شدید زخمی ہونا تھا۔ ڈاکٹر کے دوسرے فائر سے شیر کا نچلا جبڑہ بیکار ہو گیا تھا۔ لڑکے اور ڈاکٹر، دونوں کے زخموں پر شیر کے صرف اوپر والے دانتوں کے نشانات تھے۔ اگر شیر کا نچلا جبڑہ بھی سلامت ہوتا تو دونوں کا زندہ بچنا ناممکن ہو جاتا۔

اس دن کے بعد گاؤں کے لوگوں نے ہفتے بھر تک جنگل سے شیر کے بار بار دھاڑنے کی آوازیں سنیں۔ ایک دن اچانک خاموشی چھا گئی۔ لوگ سمجھے کہ شیر جنگل میں کہیں دور جا کر مر گیا ہوگا۔ اس کی لاش کسی کو نہ مل سکی۔

سٹینلے نے مجھے دو مزید واقعات سنائے۔ پہلے میں جب وہ شیر کے انتظار میں مچان پر بیٹھا تھا کہ ایک کنگ کوبرا نے اس درخت پر چڑھنا شروع کیا۔ ڈاکٹر نے اسے اس وقت تو بھگا دیا لیکن اندھیرا چھاتے ہی اسے سانپ کی واپسی کا وہم ستانے لگا۔ یہ وہم اتنا بڑھا کہ اسے اندھیرے میں ہی گاؤں پلٹنا پڑا۔

دوسری بار جب وہ مچان پر بالکل ہی سامنے بیٹھا تھا کہ اسے شیر نے دیکھ لیا۔ ساری رات شیر اس درخت کے آس پاس چکر لگاتا رہا اور دھاڑتا بھی رہا۔ اس دوران بوندا باندی بھی شروع ہو گئی۔ شیر کے جانے کے بعد بھی ڈاکٹر کی ہمت نہ ہوئی کہ وہ نیچے اترتا کیونکہ کافی اندھیرا باقی تھا۔

تگراٹھی کے قابل رسائی حصوں میں گھومتے ہوئے ایک بار میں نے ایک نوعمر شیرنی کی لاش دیکھی۔ اس کے منہ اور سینے میں سیہہ کے کل تئیس کانٹے پیوست تھے۔ ایک کانٹے نے تو اس کی دائیں آنکھ ہی نکال دی تھی۔ اس سے کچھ دور ایک تیندوے کی ادھ کھائی لاش بھی موجود تھی۔ بظاہر ایسا لگتا تھا کہ شیرنی نے سیہہ کو مارنا چاہا تھا کہ اس نے اتنے سارے کانٹے کھائے۔ آنکھ بھی گنوائی۔ بھوک سے شاید نڈھال ہو کر خوراک کی تلاش میں اس کی مڈھبیڑ تیندوے سے ہوئی۔ دونوں کی لڑائی ہوئی اور آخر کار شیرنی نے تیندوے کو مار ڈالا۔ وہ اسے کھا ہی ہی تھی کہ موت نے اسے بھی آ لیا۔ شاید سیہہ والے زخم اور تیندوے سے لگنے والے زخموں نے کچھ دیر بعد اثر دکھایا ہوگا۔ لاشیں ادھ سڑی ہوئی تھیں اور یقین سے کچھ کہنا مشکل ہی تھا۔

بیلندور کی وادی میں ایک عجیب اور پراسرار شخصیت "بدھیا" بھی تھی۔ مقامی لوگ اسے کالے جادوگر کے طور پر جانتے تھے۔ اس کے بارے مشہور تھا کہ وہ جادو ٹونے سے کئی افراد کو مار بھی چکا ہے۔ یہ شخص میرا اچھا دوست تھا۔ اس بار رات گئے باتوں کے دوران اس نے مجھے ایک لکڑی سے بنا ہوا گول سا تختہ دیا۔ یہ تختہ نما چیز کوئی چھ انچ قطر کی ہوگی۔ بقول اس کے، یہ تختہ بہت ہی دور دراز کے جنگلوں کی لکڑی سے بنایا گیا تھا۔ اس نے درخواست کی کہ میں اس تختے کو شکار کی مہمات کے دوران اپنے پاس رکھوں۔ اگر کبھی کوئی جانور نہ مل رہا ہو تو سورج کے غروب ہونے کے بعد میں اس تختے کو اپنی رائفل یا بندوق کی نالی سے تین بار اوپر سے نیچے مس کروں۔ اس نے یقین دلایا کہ آئیندہ چوبیس گھنٹوں میں وہ جانور اسی رائلف یا بندوق سے مارا جائے گا۔ مجھے یہ بتاتے ہوئے شرمندگی ہو رہی ہے کہ میں نے اس ٹونے کو ایک بار نہیں، کئی بار آزمایا اور ہر بار یہ کامیاب ہوا ہے۔ آپ اسے قسمت کہیں یا اتفاق، یہ آپ کی مرضی۔

آہ، ایک دن میرا یہ دوست "بدھیا" ملیریا کی لپیٹ میں آ کر مر گیا۔ اس کا کالا جادو بھی اس کو ملیریا سے نہ بچا سکا۔

اب کچھ ذکر گوجا کے آدم خور کا بھی ہو جائے۔ گوجا تگراٹھی سے چھ میل دور ایک اور وادی ہے۔ تگراٹھی سے املی گولا کی فارسٹ چوکی کے درمیان ہی گوجا واقع ہے۔ یہ چوکی کراڈی پٹہ کے گیم ریزرو کی سرحد پر ہے جسے ہز ہائی نس مہاراجہ میسور نے اپنے ذاتی شکار کے لئے مختص کیا ہوا ہے۔ چونکہ اس جنگل میں مویشی لے جانے کی ممانعت ہے، شیروں کو مویشی کھانے کو نہیں ملتے۔ اس جنگل کے فوراً ساتھ ہی مویشیوں کی موجودگی شیروں کے لئے کافی کشش کا باعث ہے۔ دوسرا شیر اتنے عقلمند بھی نہیں ہوتے کہ وہ کسی فرضی سرحد سے باہر نہ نکلیں۔ اس لئے شیروں کو جنگل میں رہنے سے زیادہ جنگل سے باہر نکلنے میں دلچسپی رہتی ہے۔

1938 میں ایک شیر نے عجیب نیا کام شروع کیا۔ وہ ریزور جنگل سے نکلتا، مویشی مارتا، اسے کھاتا اور پھر فوراً ہی ریزور جنگل میں چلا جاتا۔ اس جنگل میں کسی کو جانے کی اجازت نہ تھی۔ ظاہر ہے کہ یہ شیر جلد ہی بہت موٹا ہو گیا۔ مقامی لوگ اسے مویشی چور کے نام سے جاننے لگے۔

جیسے انسان وقت کے ساتھ ساتھ بہادر ہوتا جاتا ہے، اسی طرح یہ شیر بھی نڈر اور چالاک ہوتا چلا گیا۔

یہ شیر ابھی اتنا بھی چالاک اور نڈر نہ ہوا تھا کہ انسانوں پر ہی ہاتھ صاف کرنے لگ جاتا لیکن روز بروز اس کی گشت طویل سے طویل تر ہوتی گئی۔ اس طرح وہ ایک دن گواجا میں آن پہنچا۔ یہاں اس نے بستی سے ڈیڑھ میل دور ایک نالے میں رہائش رکھی۔ یہاں سے وہ مویشیوں کے ریوڑوں پر حملہ کرتا۔ ہر ہفتے دو سے تین خوب فربہ اور بہترین نسل کے جانور اس کا شکار بنتے۔

مجھے اس شیر کے لاگو یعنی مویشی خور ہونے کے بارے کئی خطوط ملے۔ میں نے اس لئے توجہ نہ دی کہ یہ ایک عام سی بات تھی۔ دوسرا اتنے ڈھیروں مویشیوں میں سے اگر چند ایک شیر کا نوالہ بن بھی جائیں تو کسی کو کیا نقصان پہنچتا۔ کم از کم انسان تو اس کی دست برد سے بچے ہوئے تھے۔

اس شیر کی ہمت اتنی بڑھ گئی کہ دو مواقع پر جب چرواہوں نے اسے بھگانے کے لئے شور مچایا تو یہ الٹا ان کی طرف غراتا ہوا لپکا۔ اگرچہ اس نے ابھی تک کسی انسان پر حملہ نہیں کیا تھا لیکن مجھے اندازہ ہو چلا تھا کہ وہ وقت دور نہیں جب وہ انسانوں پر حملہ کرنا شروع کر دے گا۔

ایک صبح ساڑھے نو بجے میں بنگلور سے اڈیری کی جانب میل ٹرین پر سوار ہو کر جا رہا تھا۔ وہاں سے ساڑھے تین میل کے پیدل سفر کے بعد میں تگراٹھی پہنچا۔ مجھے پرانے دوستوں نے بہت گرمجوشی سے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ میری تواضع کافی سے کئی گئی کیونکہ کھانا تیار ہونے میں کچھ وقت باقی تھا۔ میں نے کھانے کی تیاری کے وقفے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شیر کے بارے معلومات لینا شروع کر دیں۔ مجھے علم ہوا کہ یہ شیر عام شیروں کی طرح ہے اور اب تک اپنی مویشی خوری کی عادت کے باعث کافی بدنام ہو چکا ہے۔ کھانے کے بعد بیل گاڑی میں سوار کر میں گواجا کی طرف روانہ ہوا۔ راستہ کافی خستہ تھا اس لئے ہم شام چھ بجے پہنچے۔ میں نے جتنی دیر وہاں کے باشندوں سے باتیں کیں، میرے بندوں نے میرا خیمہ وہاں سے تین فرلانگ دور ایک نالے کے کنارے لگا دیا۔ یہاں سے شیر کوئی میل بھر دور کہیں رہتا تھا۔

مجھے لوگوں نے بتایا کہ شیر نے پچھلا شکار کوئی دو دن قبل کیا تھا۔ اب اس کا اگلا شکار ایک دو دن میں متوقع تھا۔

اگلے دن ایک بجے اطلاع آئی کہ شیر نے ایک اور پالتو جانور مار ڈالا ہے۔ فوراً ہی میں جائے حادثہ پر پہنچا۔ وہاں جا کر معلوم ہوا کہ شیر نے کھلے میدان میں گائے کو مارا ہے۔ چاروں طرف کم از کم تین سو گز تک کوئی بھی چھپنے کی جگہ نہ تھی۔ شیر گائے کو ہلاک کر کے نالے میں لے گیا۔ یہ وہی نالہ تھا جس کے کنارے میرا خیمہ نصب تھا۔ نالے کے کنارے نرم مٹی پر شیر کے گھات لگانے اور پھر گائے پر حملہ آور ہونے کے نشانات واضح تھے۔ یہاں اس نے جب حملہ کیا تو گائے نے کچھ دوڑنے کی کوشش تو کی لیکن شیر نے اسے فوراً ہی جا لیا اور مار ڈالا۔ اس کے بعد شیر نے گائے کو اٹھایا اور نالے میں لے گیا۔ یہاں کسی قسم کے گھیسٹنے کے نشانات نہ تھے۔ شیر کے پنجوں کے نشانات کافی گہرے ثبت تھے کیونکہ شیر کا اپنا وزن اور پھر گائے کا اضافی وزن اس نرم مٹی پر کافی گہرے نشانات چھوڑ گیا۔

میں نے ان نشانات کا کافی احتیاط سے جائزہ لیا اور پھر شیر کا پیچھا شروع کر دیا۔ امید تھی کہ میں جلد ہی شیر یا اس کے شکار تک پہنچ جاؤں گا۔ مجھے اندازہ تھا کہ میری آمد کو محسوس کر کے شیر سامنے ضرور آئے گا۔ لیکن ایسا نہ ہوا۔ میرا خیال ہے کہ شیر کی چھٹی حس نے اسے خبردار کر دیا تھا کہ اسے میرے سامنے ہرگز نہ آنا چاہیئے۔ شیر مجھ سے کچھ ہی دور گھاس میں چھپا غراتا رہا۔ بالاخر اس نے غراہٹ کے ساتھ فرار اختیار کی۔

یہاں ایک نہایت ہی مناسب درخت موجود تھا۔ میں نے اس پر اپنی چارپائی والی مچان بندھوائی اور شام چار بجتے بجتے اس پر بیٹھ گیا۔ شیر رات کو آٹھ بجے آیا اور سیدھا آ کر درخت کے نیچے کھڑا ہوگیا۔ مجھے اس کی آمد کا اندازہ اس کی سانس لینے کی آواز سے ہوا۔ اس نے اتنی احتیاط سے قدم رکھے کہ ایک بھی سوکھا پتہ نہ چرمرایا۔ اس نے پھر خود کو چاٹنا شروع کر دیا۔ پھر اس نے درخت کی چھال پر اپنے پنجے تیز کرنا شروع کر دیئے۔ اس وقت وہ پچھلے پنجوں پر کھڑا تھا۔ اس کی نظر مچان پر پڑ گئی اور ہلکی سی آواز کے ساتھ اس نے چھلانگ لگائی اور گم ہو گیا۔ بقیہ رات وہ نہ پلٹا۔

اگلے دن میں نے نالے کے کنارے ایک بچھڑا بندھوا دیا جہاں شیر کی رہائش کافی نزدیک تھی۔ میں نے خود ایک نزدیکی درخت پر مچان باندھی اور اس پر بیٹھ گیا۔ یہ درخت نالے پر کوئی 60 ڈگری پر جھکا ہوا تھا۔

3 بجے میں بیٹھا۔ ساڑھے پانچ بجے مجھے شیر کے ہانپنے کی آواز آئی۔ وہ نالے کے دوسرے کنارے سے ایک مردہ گائے کو گھسیٹ کر لا رہا تھا۔ وہ کوئی 80 گز دور ہوگا کہ میں نے اس کی گردن کا نشانہ لیتے ہوئے فائر کیا۔ فائر کرتے ہی شیر اچانک اپنی جگہ سے آگے بڑھا۔ اس طرح گولی اسے گردن کی بجائے کچھ پیچھے جا کر لگی جو مہلک نہ ثابت ہوئی۔ اس نے غراہٹ کے ساتھ چھلانگ لگائی اور نالے سے ہوتا ہوا غائب ہو گیا۔ میں درخت سے نیچے اترا اور بچھڑے کو لے کر گواجا واپس آیا۔ مجھے اندازہ تھا کہ اگلی صبح آرام سے خون کے نشانات کی مدد سے شیر کو تلاش کر کے ہلاک کر دوں گا۔ تاہم میرا یہ اندازہ غلط نکلا۔

اگلی صبح میں نے خون کے نشانات کا پیچھا شروع کیا۔ میرے ساتھ ہر طرح سے قابل اعتبار دو مقامی افراد بھی تھے۔ یہ نشانات نالے سے ہوتئے ہوئے کافی دور جا کر باہر نکلے۔ ہم نے بہت دور تک پیچھا جاری رکھا لیکن شیر کہیں بھی نہیں رکا تھا۔ دو میل دور جا کر شیر نے ایک جگہ تھوڑا سا دم لیا تھا۔ میرا خیال تھا کہ وہ یہاں سے املی گولا اور پھر اس کے بعد موجود گیم ریزور کی طرف جا رہا ہے۔ اگر وہ ایک بار ادھر پہنچ جاتا تو وہ ہماری پہنچ سے باہر ہو جاتا۔ گیم ریزرو میں آتشیں اسلحہ حتٰی کہ زخمی شیر کا تعاقب کرتے ہوئے بھی لے جانا ممنوع تھا۔

آگے بڑھتے ہوئے شیر مزید دو جگہوں پر رکا تھا۔ پہلی جگہ خون کافی مقدار میں بکھرا ہوا تھا۔ دوسری جگہ خون کی مقدار کافی کم تھی۔ اس کے بعد سے خون کے نشانات کم سے کم تر ہوتے چلے گئے۔ شاید اس کی کھال کے نیچے موجود چربی کی موٹی تہہ نے زخم کو ڈھانپ لیا تھا۔

ہم جلد ہی املی گولا کے نزدیک پہنچ گئے۔ یہاں سے گیم ریزرو کوئی میل بھر ہی دور تھا۔ یہاں ہماری قسمت نے ہمارا ساتھ دیا۔ یہاں ایک ندی راستے میں پڑتی تھی جو کہ اس وقت لبالب بھری ہوئی تھی۔ یہاں سے شیر کے نشانات اوپر کی طرف مڑ گئے۔ شاید اس نے اپنا ارادہ بدل دیا تھا۔ شاید وہ پینے کے پانی کی تلاش میں تھا۔ یہاں ہم پہلے تالاب تک پہنچے۔ یہاں شیر نے پانی پیا تھا اور نشانات سے اندازہ ہوتا تھا کہ اس نے کچھ دیر آرام بھی کیا تھا۔ یہ نشانات کم از کم گھنٹہ بھر قبل کے ہوں گے۔ اس سے ہمیں مہمیز ملی۔ یہاں سے فرلانگ بھر دور ایک اور تالاب تھا۔ یہاں بھی شیر رکا تھا۔ یہاں شیر کے قدموں کے نشانات سے تازہ تازہ پانی ابھر رہا تھا۔ شاید شیر ہماری ہی آہٹوں سے گھبرا کر آگے بڑھ گیا ہوگا۔ یعنی وہ زیادہ دور نہیں تھا۔

یہاں سے میں نے ارادہ بدلا کہ تعاقب کرنے سے بہتر ہے کہ گھات لگائی جائے۔ پیچھے کرنے سے شاید شیر گھبرا کر گیم ریزور کی طرف جانے کا سوچتا جو کہ میل بھر ہی دور تھی۔ میں نے اپنے ساتھیوں کو اشارہ کیا کہ وہ درخت پر چڑھ جائیں اور میں خاموشی سے نالے کے کنارے چڑھ کر چل پڑا۔ یہاں سے میں نے نالے کے ساتھ ساتھ متوازی تیزی سے چلنا شروع کیا۔ نصف میل دور جا کر نالا پھر بل کھا کر سامنے آ گیا۔ یہاں میں نیچے اترا اور واپسی کا رخ اختیار کیا تاکہ شیر کو اس کی لاعلمی میں جا لوں۔ بدقسمتی سے شیر نے میری آہٹ سنی یا پھر اس کی چھٹی حس نے خبردار کر دیا اور وہ واپس مڑا اور گیم ریزرو کی طرف چل پڑا۔

یہاں سے میں نے خون کے اکا دکا نشانات کا پیچھا کیا جہاں وہ جھاڑی میں گھسا تھا۔ میں نے ایک سرے پر رک کر درخت کی اوٹ سے جھانکا تو شیر نہ دکھائی دیا۔ اگر میں اپنے ساتھیوں کو بلانے کی کوشش کرتا تو شیر خبردار ہو کر نکل جاتا۔ اتفاقاً میری نظر ہلتی ہوئی گھاس پر پڑی جو شیر کی حرکت کی چغلی کھا رہی تھی۔ میں نے اپنی جگہ سے حرکت کی اور گھاس میں چل پڑا۔ آگے چل کر گھاس کافی چھدری ہو گئی تھی۔ اچانک ہی میری اس پر پڑی اور اسی لمحے شیر نے مجھے دیکھا۔ میں نے اس کے دائیں پہلو پر فائر کیا۔ گولی کھاتے ہی اس نے مجھ پر حملہ کر دیا۔ مگر پانچ ہی قدم چل کر اس کی ہمت جواب دے گئی اور وہ نیچے گرا۔ میں نے اس پر دوسری گولی چلائی۔ دوسری گولی کھاتے ہی وہ اچھلا اور جھاڑیوں میں گھس گیا۔

میں نے سیٹی بجا کر ساتھیوں کو بلایا جو فائروں کی آواز سن کر پہلے ہی میری طرف روانہ ہو چکے تھے۔ جب وہ پہنچے تو میں نے انہیں تفصیل بتائی اور انہیں درخت پر چڑھ جانے کی ہدایت کی کہ وہ شیر کی موجودگی سے مجھے آگاہ کرتے رہیں۔ دونوں ایک دوسرے سے پچاس پچاس گز دور تھے۔ ہدایت یہ تھی کہ شیر کو دیکھتے ہی سیٹی بجا کر آگاہ کریں۔ میں خود نالے کی طرف چل پڑا کہ اگر شیر واپس پلٹے تو میں ادھر اسے روک سکوں۔

نالے میں چلنا انتہائی دشوار تھا۔ ہر لحظہ یہ خطرہ تھا کہ شیر کنارے سے، دائیں یا بائیں یا پھر عقب سے حملہ نہ کر دے۔ آدم خور شیر کے شکار میں یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ کبھی بھی زخمی شیر کا پیچھا کرتے ہوئے نالے میں نہ اترا جائے۔ اس بات کا قوی امکان ہوتا ہے کہ شیر نالے کے کنارے سے جست لگا کر شکاری کو بے خبری کے عالم میں دبوچ سکتا ہے۔ میں کافی نا امید ہو چلا تھا کیونکہ اب اس بات کا قوی امکان تھا کہ شیر کہیں کاواڈی بنڈا نہ جا کر مرے۔

پھولی ہوئی سانسوں اور بھری رائفل کے ساتھ اور ٹریگر پر انگلی رکھے میں نالے میں اترا تھا کہ شیر اگر جھاڑی میں چھپا ہوا ہو تو اسے ہلاک کر سکوں۔ اب اسے جھاڑی سے کیسا نکالا جاتا، یہ ایک الگ مسئلہ تھا۔

واپس لوٹ کر میں نے دونوں ساتھیوں کو بلایا اور مشورہ کیا۔ شیر کی اندازاً کسی خاص جگہ موجودگی کو جانے بغیر اس جھاڑیوں بھرے قطعے میں گھسنا خودکشی ہوتا۔ اچانک ایک خیال کوندے کی طرح لپکا۔ میں نے نالے میں اتر کر اپنی قمیض اتاری۔ اس کے بازو اور گلے کو بند کر کے اس میں زیادہ سے زیادہ پتھر باندھ لئے۔ ایک ساتھی اس بیگ نما قمیض کو لے کر اوپر آیا اور ہم نے جھاڑیوں میں سنگ باری شروع کر دی۔ بالاخر شیر نے ہم سے 30 گز دور، دائیں جانب سے غراہٹ کی آواز نکالی۔

شیر یقیناً کافی زخمی تھا اور حرکت سے معذور بھی۔ اس کے باوجود ہر اس پتھر پر غراتا جو اس کے نزدیک گرتا۔

اپنے ساتھیوں کو سنگ باری جاری رکھنے کا کہہ کر میں چکر کاٹ کر اس خطے کے عقبی طرف سے آنے کی کوشش کرنے لگا۔ کچھ دیر بعد پیچھے پہنچا تو شیر کے غرانے کی آواز میرے سامنے سے آ رہی تھی۔ پتھر گرنے کی آواز بھی آ رہی تھی۔ جب تک مجھے شیر کی آواز سنائی دیتی رہی، میں آگے بڑھتا رہا۔ جونہی میں قریب پہنچا تو شیر نے شاید میری آمد کی آہٹ سنی اور خاموش ہو گیا۔ میرے ساتھیوں کو بھی اندازہ ہو گیا کہ شیر میری عقب سے آمد کو بھانپ چکا ہے۔ انہوں نے شیر کی توجہ ہٹانے کے لئے چند اور پتھر مزید تیزی اور دور پھینکے۔ شیر خاموش رہا۔

مجھے اندازہ تھا کہ اب میں بے حد محتاط ہو جاؤں۔ شیر کسی بھی لمحے حملہ کر سکتا ہے۔ میں رک گیا اور اپنے حواس مجتمع کئے۔ میں ہر ممکن آہٹ سننے کے لئے تیار تھا۔ وقت خاموشی سے گزرتا رہا۔ پتھر گرنے کی آواز آتی رہی۔ میرے اندر بڑھتے ہوئے خطرے کا احساس بڑھتا رہا۔ ہر وقت یہی محسوس ہو رہا تھا کہ شیر میرے نزدیک سے نزدیک تر ہو رہا ہے۔ اس خاموشی کو توڑنے کے لئے یا تو میں خود چیختا یا پھر ہٹ جاتا۔ ورنہ یہ خاموشی میرے اعصاب کو جکڑ رہی تھی۔

اچانک ہی میں پیچھے مڑا۔ اسی وقت دو جھاڑیوں کے درمیان شیر میرے عقب میں مجھ پر چھلانگ لگانے کے لئے بالکل تیار حالت میں تھا۔ ہماری آنکھیں ملتے ہی اس نے دھاڑ لگا کر حملہ کر دیا۔ اس دوران میری ونچسٹر رائفل دو بار بولی۔ دونوں گولیاں شیر کے منہ پر لگیں۔ میں ذرا سا ہٹا اور شیر میرے سامنے آ کر گرا۔ اس نے آخری بار ٹانگیں چلائیں اور چند ہی فٹ کے فاصلے سے میں نے ایک اور گولی اس کے دل میں اتار دی۔

گواجا کے اس بوڑھے شیر کی گیم ریزور واپس جانے کی تمام تر کوششیں ناکام ہو گئیں۔

پانا پتی کا پاگل ہاتھی

یہ ہاتھی، جس کے بارے میں یہ داستان لکھ رہا ہوں، دیگر ہاتھیوں کی مانند ایک چھوٹی جسامت کا نر ہاتھی تھا۔ اس کی کل اونچائی ساڑھے سات فٹ تھی۔ عموماً ہندوستانی ہاتھی کے اگلے پیر کے نشان کی گولائی کا مربع اس کی اونچائی کے برابر ہوتا ہے۔ اتنی سی جسامت کے برعکس اس میں مکاری، کینہ پروری اور انسانوں سے دشمنی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔

اس کا بیرونی صرف ایک دانت تھا۔ یہ کوئی ڈیڑھ فٹ لمبا ہوگا۔ کہا جاتا ہے کہ اس کا دوسرا دانت دریائے کاویری کے کنارے ایک لڑائی میں ٹوٹا تھا۔ یہ لڑائی غول کے بڑے نر سے ہوئی تھی۔ جب اس نوجوان نے غول کی ماداؤں پر بری نظر ڈالی تو غول کے بڑے نر اور سردار نے اسے غول سے نکال باہر کیا۔ اس نوجوان ہاتھی نے بدلے میں لڑائی کی ٹھانی۔

یہ اپنی نوعیت کی ایک عجیب لڑائی تھی۔ تجربہ، عمر اور طاقت میں اس سے کہیں بڑے ہاتھی نے اسے بری طرح مارا۔ اسے بہت بری طرح اور نہایت بے دردی سے کچلا اور نوچا گیا تھا۔ اس کے پہلو پر سردار کے دانتوں کے نشانات تھے۔ اس لڑائی کے باعث اسے غول چھوڑنا پڑا۔ چھوٹے موٹے زخموں کے علاوہ اسے دانت بھی گنوانا پڑا جو ظاہر ہے کہ بہت دن تک درد کی اذیت بھی جھیلنی پڑی ہوگی۔

اس حالت میں بھی وہ غول سے کچھ ہی فاصلے پر ان کے ساتھ ساتھ حرکت میں رہا۔ لیکن اسے گروہ میں شامل ہونے کی اجازت نہ تھی۔ اس طرح آوارہ گردی کے دوران میں اسے ایک دن پگڈنڈی پر ایک بیل گاڑی آتی دکھائی دی جس پر کٹے ہوئے بانس لدے ہوئے تھے۔ اس ہاتھی پر اچانک ہی دورہ پڑا اور اس نے اپنی لڑائی کا غصہ بیل گاڑی پر نکالنے کی ٹھانی۔ اس نے فوراً ہی ہلہ بول دیا۔ گاڑی بان نے ہاتھی کو دیکھتے ہی چھلانگ لگا کر دوڑ لگائی اور اس طرح بچ گیا۔ بیچارے بیل گاڑی میں جتے ہوئے تھے اور ان پر کافی وزنی لکڑی لدی ہوئی تھی۔ بیچارے اپنی موت کو سامنے دیکھ کر وہ بھاگ بھی نہ سکے۔ یہ ہاتھی جو اب انتقام کی آگ میں پاگل اور اندھا ہو رہا تھا، نے گاڑی کو ماچس کی تیلیوں کی طرح توڑ موڑ کر رکھ دیا۔ پھر وہ بیلوں کی طرف مڑا۔ ایک بیل کو اس نے سینگ سے سونڈ میں پکڑ کر ہوا میں اچھالا۔ اگلے دن جب بیل کی لاش ملی تو اس کا سینگ جڑ سے غائب تھا اور ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ کر اور کھال کو پھاڑتی ہوئی زمین میں گھسی ہوئی تھی۔ اب ہاتھی نے دوسرے بیل کا رخ کیا۔ خوش قسمتی سے دوسرا بیل گاڑی کے ٹوٹنے اور دوسرے بیل کے مارے جانے پر فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔

اس دن سے اس ہاتھی کی ہوا بگڑتی چلی گئی۔ دور دراز کے کئی مسافر اس کے پیروں تلے کچل کر، دانت کی زد میں آ کر، سونڈ میں جکڑ کر زمین پر پٹخے جانے یا پھر درخت سے ٹکرائے جانے سے ہلاک ہوئے۔

اس ہاتھی سے میری پہلی مڈبھیڑ اتفاقاً ہوئی تھی۔ میں "ہگینی کال" نامی جگہ گیا ہوا تھا۔ یہ پانی پتی سے 4 میل دور اور دیرائے کاویری کے کنارے واقع ہے۔ میرا ارادہ تھا کہ اختتام ہفتہ پر مہاشیر مچھلی کا شکار کھیلوں گا۔ اگر قسمت نے یاوری کی تو ایک آدھ مگرمچھ بھی ہاتھ لگ جائے گا۔ ان دنوں یہ مشہور ہو چلا تھا کہ یہ ہاتھی دریا عبور کر کے کسی دوسرے غول میں شامل ہو کر ادھر سے چلا گیا ہے۔

قیام کے دوسرے دن میں مچھلی کا شکار کھیل کر بنگلے کی طرف پلٹا۔ مجھے چائے کی طلب ہو رہی تھی۔ اچانک ساتھ ہی جنگل سے مور کی آواز آئی۔ میں چائے کو بھلا کر رات کے کھانے کے لئے مور کے سہانے خیال میں کھو گیا۔

میں نے دو عدد 1 نمبر کے کارتوس جیب میں ڈالے اور بندوق اٹھا کر اس طرف چل پڑا جہاں سے مور کی آواز سنائی دی تھی۔ یہاں آ کر میں ذرا رکا کہ مور کو تلاش کروں۔ میرا اندازہ تھا کہ مور اس وقت دریائے چنار کے خشک حصے میں ہوگا۔ دریائے چنار آگے چل کر دریائے کاویری سے جا ملتا ہے۔

ندی کی نرم ریت پر میرے ربر سول کے جوتے بالکل آواز پیدا نہ کر رہے تھے۔ یہاں مجھے مور کے پر پھڑپھڑانے کی آواز صاف سنائی دے رہی تھی۔ مور دریا کے دوسرے کنارے پر تھا۔ ابھی میں دریا کا خشک پاٹ عبور کر ہی رہا تھا کہ میں نے ایک فلک شگاف چنگھاڑ سنی۔ مجھ سے محض 50گز دور ہاتھی نمودار ہوا۔ اس کا رخ میری طرف تھا۔

ہاتھی کے دوڑنے کی رفتار بہت تیز ہوتی ہے۔ یہ ناممکن تھا کہ میں اس سے زیادہ تیز دوڑ پاتا۔ دوسرا ندی کے پاٹ کی ریت اتنی نرم اور بھربھری تھی کہ میں بھاگ بھی نہ سکتا۔ میں نے فوراً ہی ٹوٹے ہوئے ایک درخت کے تنے کی اوٹ لی اور باری باری بندوق کی دونوں نالیاں چلا دیں۔ اس وقت ہاتھی مجھ سے کوئی 30 گز دور ہوگا۔

کارتوسوں کے چلنے کا دھماکہ، بارود کا دھواں اور ننھے منے چھروں کی بوچھاڑ کا اتنا اثر ہوا کہ ہاتھی ذرا بھر رکا۔ میرے لئے اتنی مہلت کافی تھی۔ میں سر پر پیر رکھ کر دوڑا۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ میں اتنا تیز کیسے دوڑا۔ خالی بندوق میرے ہاتھ میں تھی۔ بنگلے پر پہنچ کر میں نے رائفل اٹھائی اور واپس اسی طرف دوڑ پڑا۔ اب دریائے چنار کے دونوں کنارے خالی پڑے تھے۔ ہاتھی دریا کی دوسری طرف جا کر جنگل میں گم ہو گیا تھا۔ اب چونکہ اندھیرا چھانے والا تھا تو میں نے اس پر زیادہ توجہ نہ دی۔

اگلے دن مجھے واپس بنگلور لوٹنا تھا جس کی وجہ سے میں یہاں مزید قیام نہیں کر سکتا تھا۔ اس طرح اس ہاتھی پر پہلی گولی چلانے کا سنہری موقع میں نے گنوا دیا۔

اس ہاتھی کو سرکاری طور پر پاگل قرار دے کر عام اعلان کرا دیا گیا تھا کہ اس ہاتھی کو مارنے پر 500 روپے یعنی 34 پاؤنڈ کا انعام دیا جائے گا۔ یہ اعلان بذریعہ ڈھنڈورچی اور بذریعہ اشتہار، ہر طرح سے کیا گیا تھا۔

اس علاقے کے ایک مشہور مقامی بندے نے اس ہاتھی کو مارنے اور انعام پانے کی ٹھانی۔ اس کی المناک کہانی کچھ یوں رہی۔

اعشاریہ 500 بور کی دو نالی ایکسپریس رائفل اس کے پاس تھی جو کالے بارود سے چلتی تھی۔ یہ رائفل اس کے اچھے دنوں کی یادگار تھی۔ وہ رائفل کے ہمراہ پانا پتی پہنچا۔ یہاں اسے معلوم ہوا کہ ہاتھی ساتھ والے جنگل میں موجود ہے۔ دریائے چنار کے کنارے جہاں میں کچھ ہی دن قبل ہاتھی کا شکار ہوتے ہوتے بچا، یہاں سے نزدیک ہی تھا۔ اس دریا کے ایک کنارے پر "ووڈا پٹی" کا گیم ریزرو اور دوسرے پر پناگرام بلاک ہے۔

یہ آدمی بیچارہ دو دن تک ہاتھی کی تلاش میں سرگرداں مارا مارا پھرتا رہا۔ تیسری رات اس نے اپنا خیمہ دریا سے دو میل اندر جنگل میں لگایا تاکہ رات بسر کی جا سکے۔ ہاتھی کے متعلق اس کا اور اس کے ہمراہیوں کا اندازہ تھا کہ وہ دریا کی دوسری طرف ہے۔ پھر بھی انہوں نے احتیاطاً خیموں کے گرد آگ جلا لی۔ اس نے اپنے ہمراہیوں کو ہدایت کی کہ وہ ڈھیر ساری لکڑیاں اکٹھی کر لیں تاکہ رات بھر آگ جلتی رہے۔

اس وقت جنگل بالکل پر سکون تھا۔ باری باری تمام افراد نیند اور تھکن سے بے حال ہو کر سوتے چلے گئے۔

علی الصبح ہاتھی اتفاقاً ادھر سے گذرا۔ اس وقت تک آگ دھیمی پڑ چکی تھی۔ جا بجا انگارے ہی دہک رہے تھے۔ عموماً ہاتھی اور دیگر جانور آگ کے نزدیک نہیں جاتے۔ شاید اس ہاتھی نے جب خیمے دیکھے تو اس پر وحشت غالب آ گئی۔ اس نے وہ جگہ تلاش کی جہاں آگ اور انگارے بالکل نہ تھے۔ ایک طویل چنگھاڑ کے ساتھ وہ ایک خیمے پر ٹوٹ پڑا۔

دوسرے خیمے کے افراد کی آنکھ چنگھاڑ سن کر کھل گئی اور وہ لوگ بھاگ نکلے۔ دوسرے خیمے کے مالک کو جاگنے یا اپنی رائفل استعمال کرنے کا موقع تک نہ ملا۔ ہاتھی نے اس خیمے کو اکھاڑ کر اس پر اپنی سونڈ پھیرنی شروع کر دی۔ جونہی سونڈ سے بیچارہ شکاری مس ہوا، ہاتھی نے اسے پکڑ کر سر سے اونچا اٹھایا اور پھر زمین پر پٹخ دیا اور اس پر اپنا پیر رکھ کر اسے کچل دیا۔ چند منٹ بعد شکاری کی جگہ خون اور قیمے کی ٹکیا سی پڑی تھی۔ ہاتھی ایک بار پھر جنگل میں گھس کر غائب ہو گیا۔

اس واقعے کے بعد حکومت نے اس ہاتھی کے مارنے پر انعام دگنا کر کے 1000 روپے کر دیا۔ اس انعام سے مجھے بھی لالچ ہوا کہ میں اس ہاتھی کو شکار کروں۔

پانا پتی پہنچ کر میں نے اس حالیہ حادثے کے مقام کا معائینہ کیا۔ مجھے اس ہاتھی کی درندگی پر حیرت ہوئی کہ وہ کیسے آگ کے دائرے میں گھسا ہوگا۔ وہ جگہ بالکل پاس ہی تھی جہاں ہاتھی نے شکاری کو ہلاک کیا تھا۔ اس وقت تک بیچارے شکاری کی باقیات تک کو کوے ہڑپ کر گئے تھے۔

پانا پتی لوٹ کر میں نے اپنی مدد کے لئے ایک مقامی چرواہے کو تیار کیا۔ یہ چرواہا جنگل سے بخوبی واقف اور اچھا کھوجی تھا۔ یہاں پر جگہ جگہ ہاتھی کے پیروں کے نشانات تھے۔ مسئلہ یہ تھا کہ تازہ نشانات کیسے تلاش کریں جس کا پیچھا کیا جا سکے۔ یہ کام بظاہر ناممکن سا لگتا تھا کیونکہ ہاتھی اب دریا کے دوسرے کنارے جنگل میں یا پھر اس طرف کی پہاڑیوں کی طرف نکل گیا ہوگا جو بمشکل 4 میل دور تھیں۔

"وڈا پٹی" والا کنارا دو میل چوڑی پھولدار گھاس سے ڈھکا ہوا تھا۔ یہ گھاس تقریباً دس فٹ بلند تھی اور نہایت خوبصورت پھولوں سے ڈھکی ہوئی تھی۔ یہ پھول صبح سویرے گرنے والی شبنم سے چمک رہے تھے۔ یہ گھاس اتنی گھنی تھی کہ یہاں گز بھر دور کی چیز بھی نہ دکھائی دیتی۔ ہاتھی کے گزرنے کے نشانات موجود تھے اور ہاتھی کے بوجھ تلے کچلے جانے والے پھولوں کے تنے اب آہستہ آہستہ دوبارہ اٹھ رہے تھے۔

اس گھاس کی پٹی کی چوڑائی 100 سے 200 گز تک تھی۔ یہاں پہاڑیاں بالکل متصل تھیں۔ ان میں گھسنتا اور پھولدار گھاس میں گھسنا یکساں خطرناک تھا۔ اس جگہ ہر طرف بانس کے درخت گرے ہوئے تھے جن کے باعث قدم بڑھانا نا ممکن تھا۔

ہم نے اس علاقے میں چار روز تک ہاتھی کی تلاش جاری رکھی۔ ہماری یہ تلاش دریائے کاویری سے لے کر 35 میل دور ایک بند تک جاری رہی۔ ہمیں کہیں بھی ہاتھی کے نشانات نہ ملے۔

پانچویں دن دوپہر کو میں اور میرا ساتھی کھوجی دوبارہ دریائے کاویری کے کنارے تھے۔ اس بار میں نے فیصلہ کیا کہ اس بار ہم دریا سے اوپر کی طرف تلاش کرتے ہیں۔ تین میل کا فاصلہ ہم نے گرے ہوئے درختوں، گھنی گھاس اور پتوں سے بڑی مشکل سے طے کیا۔ یہاں ہمیں ہاتھی کے پیروں کے بالکل تازہ نشانات ملے۔ یہ نشانات آج صبح کے تھے اور ہاتھی دوسرے کنارے سے اس طرف پہنچا تھا۔ یہ نشانات پاگل ہاتھی کے نشانات سے مماثل تھے۔

اب پیچھا کرنا آسان ہو گیا۔ نشانات نہ صرف تازہ اور واضح تھے بلکہ ہاتھی کے گزرنے کے باعث راستہ سا بھی بنا ہوا تھا۔

یہاں ہم لوگ نشانات کا پیچھا کرتے کرتے پہاڑی تک آن پہنچے۔ یہاں ہمیں ہاتھی کی لید کا ڈھیر دکھائی دیا۔ یہ لید تازہ تھی لیکن اس میں حرارت باقی نہیں تھی۔ ہم مزید آگے بڑھے۔ وادی میں پہنچ کر ہم نے لید کا ایک اور ڈھیر دیکھا۔ یہ بھی سرد ہو چکا تھا۔ یعنی ہاتھی اب بھی ہم سے کافی آگے تھا۔

تھوڑا سا آگے چل کر ہم نے دیکھا کہ ہاتھی نے اچانک اپنا رخ بدلا ہے اور وہ اب دریائے کاویری کی طرف جا رہا ہے۔

ہمیں خطرہ ہوا کہ کہیں ہاتھی دریائے کاویری عبور کر کے ہم سے بچ نکلنے میں کامیاب نہ ہو جائے۔ ہر ممکن تیزی سے آگے بڑھتے ہوئے آگے ہم نے ایک جگہ ہاتھی کی بالکل تازہ اور گرم لید دیکھی۔ پیشاب ابھی بھی زمین میں پوری طرح جذب نہ ہوا تھا۔ آخر کار ہم ہاتھی کے بہت نزدیک پہنچ گئے تھے۔

اب ہم نے باقاعدہ دوڑ شروع کر دی کہ ہم ہاتھی سے قبل یا پھر اس کے ساتھ ہی دریائے کاویری تک پہنچیں۔ یہاں ٹوٹے ہوئے درختوں کی شاخوں سے پانی رس رہا تھا جو ظاہر کرتا تھا کہ ہاتھی ابھی ابھی یہاں سے گزرا ہے۔

آخر کار ایک ڈھلوان عبور کرتے ہی پانی بہنے کی آواز آئی۔ موڑ مڑتے ہی دریائے کاویری ہمارے سامنے تھا۔ خاموشی اور احتیاط سے آگے بڑھتے ہوئے ہم نرم ریت تک پہنچے۔ یہاں ہمارے اندازے کے برعکس ہاتھی نے دریا عبور کرنے کی بجائے دریا کے ساتھ ساتھ ہی چلتے رہنے کا فیصلہ کیا تھا۔

150گز مزید دور جا کر ہمیں ایک چھوٹا سا گڑھا دکھائی دیا جس میں پانی جمع تھا اور ہاتھی کے کلیلیں کرنے کی آوازیں بھی آ رہی تھیں۔ ہاتھی نہا رہا تھا۔

خوش قسمتی سے ہوا ہاتھی سے ہماری طرف چل رہی تھی۔ ہم احتیاط سے اور جھک کر بڑھے تو ہاتھی دکھائی دیا۔ اس کا منہ دوسری طرف تھا۔

یہاں اس زاویے سے یہ کہنا بالکل نا ممکن تھا کہ یہ ہاتھی وہی پاگل ہاتھی ہی ہے۔ ہم نے انتظار کی ٹھانی کہ کب ہاتھی اپنا رخ بدلتا ہے۔

5 منٹ مزید نہانے کے بعد اچانک ہاتھی اٹھا اور گڑھے سے باہر نکلا۔ اس وقت تک بھی اس کا رخ مخالف سمت تھا اور ہم اس کے دانت نہ دیکھ سکے تھے۔

اب ہم نے بعجلت فیصلہ کرنا تھا کہ کیا کریں۔ اگر ہاتھی ایک بار دریا کے کنارے پہنچ جاتا تو پھر گم ہو جاتا۔ میں اچانک دو بار چٹکی بجائی۔ یہ آواز ہاتھی کے حساس کانوں تک فوراً پہنچی اور وہ رک گیا۔ پھر وہ مڑا۔ یہ وہی پاگل ہاتھی تھا جس کا صرف ایک بیرونی دانت تھا۔ اس کا یہ دانت دائیاں تھا، بائیں جانب والا دانت غآئب تھا۔ اس کی سونڈ وحشیانہ انداز میں اٹھی ہوئی تھی۔ اس نے سیکنڈ سے بھی کم وقت میں ہمیں تلاش کر لیا۔ سونڈ لہراتے ہوئے وہ ہماری جانب بڑھا۔

اسی لمحے میری اعشاریہ 405 بور کی رائفل بول پڑی۔ یہ گولی اس کی سونڈ سے ہوتی ہوئی اس کے حلق سے گذری اور اس کی شہ رگ میں سوراخ کر گئی۔ ہاتھی وہیں رک گیا۔ اس کے حلق سے خون فوارے کی مانند نکل رہا تھا۔ اس نے مڑنے کی کوشش کی۔ اتنے میں میں نے مزید دو گولیاں اس کے ماتھے اور کان کے پیچھے اتار دیں۔ یہ دونوں گولیاں مہلک ثآبت ہوئیں اور ہاتھی گر گیا۔

اس کے سارے بدن پر کپکپی طاری تھی اور گڑھے کا پانی سرخ ہو چلا تھا۔ چند منٹ ہی میں اس کی روح نکل گئی۔

تعارف

شیر کا آدم خوری کی طرف مائل ہونا غیر معمولی امر ہے۔ عام حالات میں ہندوستانی جنگلوں کا یہ بادشاہ نہایت شریف اور قابل احترام جانور ہے۔ شیر ہمیشہ شکار برائے خوراک کرتا ہے۔ حیوانی جبلت کی تسکین کے لئے شکار کرنا شیر کا خاصہ نہیں۔ اس کا شکار عموماً جنگلی چرندے ہوتے ہیں۔ کبھی کبھار یہ سرکاری چراہ گاہوں کے مویشیوں پر بھی ہاتھ صاف کر لیتا ہے۔

بعض اوقات شیرنی اپنے نوعمر بچے کو شکار کے گر سکھاتے ہوئے ایک وقت میں تین سے چار جانور بھی مار سکتی ہے تاکہ بچے کو شکار کے گر اچھی طرح سمجھائے جا سکیں۔ شیر کے شکار کا طریقہ عموماً جانور کی گردن توڑ کر اسے ہلاک کرنا ہوتا ہے۔ شیرنی عام طور پر دو بچے ہی پیدا کرتی ہے لیکن چار تک بچے ہونا عام بات ہے۔ کہا جاتا ہے کہ نر شیر اگر زچگی کے وقت قریب موجود ہو تو آدھے بچے بالخصوص نر بچے وہ خود کھا جاتا ہے۔

شیر کے شکار کا طریقہ، جیسا کہ میں نے اوپر بتایا، جانور کی گردن توڑ کر اسے مارنا ہوتا ہے۔ چیتے اور تیندوے عموماً جانور کا گلہ گھونٹ کر اسے مارتے ہیں۔ شیر شکار کے لئے جانور کے ساتھ بھاگتے ہوئے اس کی پشت پر پنجہ رکھ کر اسے دباتا ہے اور ساتھ ہی اس کی گردن پکڑ کر نیچے کی طرف مروڑ دیتا ہے۔ اس طرح بھاگتے جانور کا اپنا وزن ہی اسے ہلاک کر دینے کے لئے کافی ہو جاتا ہے۔ اس طرح شیر کو زور لگا کر گردن توڑنے کی محنت سے چھٹکارا مل جاتا ہے۔ ویسے میں نے خود اپنی آنکھوں سے شیر کو گردن مروڑ کر بھی جانور کو ہلاک کرتے دیکھا ہے۔ شکار کے دوران شیر کا منہ اتنا کھل جاتا ہے کہ یہ بتانا مشکل ہے کہ وہ جانور کو گردن کے اوپر سے پکڑتا ہے کہ نیچے سے۔ دانتوں کے نشانات بھی اس بات پر روشنی نہیں ڈالتے۔

اسی طرح چیتے اور تیندوے میں ایک دلچسپ فرق ہوتا ہے۔ تیندوے اور چیتے ایک ہی نسل کے جانور ہیں۔ تیندوا نسبتاً بڑی جسامت کا ہوتا ہے اور اکثر جانور کی گردن توڑ کر اسے مارتا ہے جبکہ چیتا گلا گھونٹ کر۔ اس کے علاوہ چیتا چھوٹی جسامت کے جانور بھی مارتا ہے جن میں گھریلو مرغیاں، آوارہ کتے اور چھوٹے موٹے جانور شامل ہیں۔ تیندوا اور چیتا شیر کی نسبت بہت کم طاقتور ہوتے ہیں لیکن مکاری میں لاثانی۔ تیندوے برصغیر، ایشیا اور یورپ میں پائے جاتے ہیں۔

آدم خور چاہے شیر ہو یا تیندوا یا پھر چیتا، ان کی آدم خوری کی سب سے بڑی وجہ انسان ہی ہوتا ہے۔ بندوق یا رائفل سے کئے گئے اوچھے وار کے بعد جب یہ اپنے قدرتی شکار کو مارنے میں ناکام رہنے پر وہ انسان پر حملہ کرتا ہے۔ انسان جب غیر مسلح ہو تو اپنے دفاع سے بالکل معذور ہوتا ہے۔ بعض اوقات آدم خوری کی وجہ سیہہ کے شکار کے دوران لگنے والے کانٹے بھی ہوتے ہیں۔ اسی طرح آدم خور شیرنی اپنے بچوں کو بھی یہ عادت منتقل کر سکتی ہے۔ ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ کسی وبائی بیماری سے مرنے والے افراد کی لاشیں جلائے یا دفن کئے بغیر جنگل میں پھینک دی جاتی ہیں جنہیں کھا کر یہ جانور آدم خوری کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔ بعض اوقات آدم خوری کی وجہ بالکل بھی معلوم نہیں ہو پاتی۔

آدم خور بن جانے کے بعد چاہے وہ چیتا ہو یا تیندوا یا پھر شیر، یہ اپنے ارد گرد کے علاقے کے لئے ایک دہشت بن جاتے ہیں۔ عموماً غریب دیہاتی اپنے دفاع سے معذور ہوتے ہیں اور ان کے پاس دو ہی راستے ہوتے ہیں، یا تو ایک ایک کر کے آدم خور کا شکار ہوتے جائیں اور یا پھر اس علاقے کو چھوڑ کر دور چلے جائیں۔ شیر عموماً ایک ہی علاقے میں محدود رہتا ہے۔ لیکن جوں جوں ہلاکتیں بڑھتی جاتی ہیں، توہم پرستی لوگوں کو اتنا کمزور کر دیتی ہے کہ وہ کچھ کرنے کے قابل نہیں رہ جاتے۔ ایسی صورتحال میں آدم خور کے خلاف حکمت عملی تیار کرنا بالکل ناممکن ہو جاتا ہے۔ سڑکیں ویران ہو جاتی ہیں، دیہاتی آمد و رفت بالکل رک جاتی ہے، جنگلوں کی کٹائی رک جاتی ہے، مویشیوں کو چرانے کے لئے نہیں بھیجا جاتا، کھیت اجڑ جاتے ہیں اور بعض اوقات پورے کا پورا گاؤں دوسری جگہ منتقل ہو جاتا ہے۔ آدم خور کے شکار میں یہ بھی مشکل ہوتی ہے کہ توہم پرست لوگ سمجھتے ہیں کہ اگر وہ اس کے بارے کچھ بھی کہیں گے تو آدم خور کو علم ہو جائے گا کہ کس نے اس کے خلاف بات کی ہے اور پھر سب سے پہلے وہ انہی کا ٹینٹوا دبائے گا۔

اسی طرح ملاپ کے دنوں ہاتھی بھی پاگل ہو جاتے ہیں۔ یہ عرصہ نوے دن پر محیط ہوتا ہے اور اس دوران ہاتھی نہایت خطرناک ہو جاتے ہیں۔ ہاتھی کے کان کے پیچھے والے سوراخ سے بدبو دار اور چکنے مواد کا رسنا اس کی علامت ہوتی ہے۔ اس ملاپ کے زمانے کے بعد یہ ہاتھی عموماً اپنی اصل حالت پر لوٹ آتے ہیں اور خطرہ نہیں رہتے۔ بعض اوقات نوجوان ہاتھی ماداؤں کے شوق میں بڑے نروں سے ٹکرا جاتے ہیں۔ نتیجتاً ان کی بری طرح پٹائی ہوتی ہے اور پھر وہ گروہ سے نکال دیئے جاتے ہیں۔ اس طرح جب وہ گروہ سے الگ ہوتے ہیں تو پھر جو چیز سامنے پڑے اسے توڑ پھوڑ کر اپنا غصہ نکالتے ہیں۔ انسان حسب معمول ایک آسان شکار ہوتا ہے۔

یہ بات واضح رہے کہ ہندوستان کے جنگلات آدم خوروں اور پاگل ہاتھیوں سے بھرے نہیں ہوتے۔ یہاں پگڈنڈی پر جنگل کے وسط میں چلنا اتنا ہی محفوظ ہوتا ہے جتنا کہ کسی بڑے شہر کی سڑک پر چلنا۔

اس کے علاوہ یہاں کی خوبصورتی، حشرات، جانور، پرندے، ان جنگلوں کا جوبن، طلوع اور غروب آفتاب کا وقت اور چاندی جیسی چاندنی راتیں جب چاند بانس کے جھنڈ پر چمکتا ہے، انسان کی تنہائی، اس کا اپنے خالق سے قرب، یہ تمام ایسی چیزیں ہیں جو جنگل کے علاوہ شاید ہی کہیں مل سکیں۔

مجھے توقع ہے کہ یہ کتاب پڑھتے وقت جب آپ کو جغرافیائی اور قدرتی ماحول کی وضاحت پر ایک بڑا حصہ دکھائی دے گا یا جب میں جانوروں اور پرندوں کی آوازوں کی نقالی لکھنے کی کوشش کروں گا تو یہ محض ان سنہری یادوں کو تازہ کرنے کی کوشش ہوگی جن سے ہو سکتا ہے کہ بہت سارے لوگ دور ہو چکے ہوں۔ وہ وقت قریب ہے جب میں خود ان سے بچھڑ جاؤں گا۔

آخر میں میں اپنے والد کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا جنہوں نے مجھے 7 سال کی عمر میں بندوق چلانا سکھایا۔ وہ جنگل سے اتنا زیادہ شغف نہیں رکھتے تھے۔ بطخوں، تیتر اور چھوٹے جانور کا شکار ان کی خوشی کے لئے کافی تھے۔ اس کے علاوہ بیرا کا شکریہ ادا کرنا بھی لازمی ہے جو کہ ایک مقامی پجاری ہے اور دریائے چنار کے کنارے ایک کھوہ میں آج سے 25 سال قبل اس سے میری پہلی ملاقات ہوئی تھی۔ اس نے مجھے جنگل کی الف بے سکھائی تھی۔ جنگل سے میری محبت کا ایک بڑا سبب بیرا ہی ہے۔ اس کے علاوہ میرے ساتھی مقامی شکاری رانگا کا بھی میں بہت مشکور ہوں جس نے بے شمار مہمات میں میرا ساتھ دیا۔ رانگا نے ہر خطرے میں ثابت قدمی دکھائی اور مجھے اس کی دوستی پر ہمیشہ فخر رہے گا۔ سووری جو کہ رانگا کا نائب اور رانگا جتنا ہی عمدہ شکاری تھا، میرے پرانے دوست اور شکار ڈک برڈ اور پیٹ واٹسن کا شکریہ ادا کرنا بھی بے موقع نہ ہوگا جنہوں میرے علم میں سب سے زیادہ شیر مارے ہیں، میرے شروع کے دن میں میرے رہنما تھے۔

Powered by Blogger.