Sunday, November 11, 2007

گملا پور کا آدم خور تیندوا

عام استوائی جنگلات میں تیندوے کا وجود عام ہے جبکہ شیر صرف ہندوستان کے جنگلات تک محدود ہے۔ شیر کی ہندوستان آمد زیادہ پرانی نہیں۔ تاہم تاریخی اعتبار سے تیندوے اور چیتے کی موجودگی ہندوستان میں بہت پرانی ہے۔

اپنی چھوٹی جسامت، کم طاقت اور انسان سے فطری خوف کے باعث تیندوے کو شیر سے کم تر درجے کا درندہ سمجھا جاتا ہے۔ شیر کے شکاری بھی اکثر انہی وجوہات کی بنا پر تیندوے کا ذکر قدرے حقارت سے کرتے ہیں۔ حتٰی کہ اگر تیندوے کو مجبور کیا جائے تو یہ محض کاٹنے، بھنبھوڑنے اور پنجے مارنے تک ہی محدود رہتا ہے۔ جبکہ شیر کے حملے کی داستان سنانے کے لئے چند ہی لوگ زندہ بچے ہیں۔

تاہم یہ عمومی رائے اس وقت تک توجہ کے قابل رہتی ہے جب تیندوا آدم خور نہ ہو۔ آدم خور بننے کے بعد تیندوا ایک بالکل ہی مختلف جانور بن جاتا ہے اگرچہ تیندوے کی آدم خوری اتنی عام بات نہیں ہے۔ آدم خور بننے کے بعد تیندوا ایک ایسی ہلاکت خیز مشین بن جاتا ہے جس کا مقصد صرف اور صرف نسل انسانی کی تباہی و بربادی رہ جاتا ہے۔ اس کی پھیلائی ہوئی تباہ کاری کسی بھی طرح آدم خور شیر سے کم نہیں ہوتی۔ اپنی چھوٹی جسامت کے باعث یہ شیر سے کہیں چھوٹی جگہ میں چھپ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ مکار اور نڈر بھی ہوتا ہے اور اپنی حفاظت کے لئے انتہائی محتاط ہوتا ہے۔ اس کی کھال کا رنگ اسے ماحول میں اتنا چھپا دیتا ہے کہ اسے دیکھنا کافی مشکل ہو جاتا ہے۔

گملا پور کا آدم خور ایک ایسا ہی جانور تھا۔ اس نے کل بیالیس افراد مارے۔ اس کی ذہانت ایک عام انسان کی ذہانت سے بڑھ کر تھی۔ اس کے بارے بہت سی پراسرار کہانیاں مشہور تھیں۔ خیر کچھ بھی ہو، اڑھائی سو مربع میل کے علاقے میں اس کی دہشت طاری تھی۔

اس سارے علاقے کی تمام بستیوں میں سورج غروب ہونے سے قبل ہی دروازے بند کر دیئے جاتے تھے۔ اکثر جگہوں پر تو مزید حفاظت کے خیال سے دروازے کے ساتھ ڈبے، اضافی لکڑیاں وغیرہ بھی لگا دی جاتی تھیں۔ اکثر گھروں میں لیٹرین نہیں ہوتی۔ وہ لوگ گھر کے پاس موجود کوڑے کرکٹ کے انبار کو ہی لیٹرین کا متبادل سمجھ لیتے ہیں۔

جوں جوں انسانی شکار مشکل ہوتا گیا، اس تیندوے کی مکاری اور چالاکی بڑھتی گئی۔ دو مختلف واقعات میں اس نے دیوار توڑ کر اپنے شکار کو اٹھا لیا جن کی چیخیں پورے گاؤں نے سنیں لیکن کسی کی مجال نہ تھی کہ مدد کو آتا۔ ایک بار جب وہ جھونپڑے کی دیوار کو نہ توڑ سکا تو وہ گھاس پھونس سے بنی چھت توڑ کر اندر گھس گیا۔ جب وہ اپنا شکار لے کر واپس چھت سے باہر نہ نکل سکا تو اس نے کمرے میں موجود بقیہ چار افراد کو بھی ہلاک کر دیا اور خود چھت کے سوراخ سے نکل کر فرار ہو گیا۔ یہ افراد میاں بیوی اور دو بچے تھے۔

دن کو ہی دیہاتی لوگ کچھ متحرک ہوتے تھے۔ لیکن دن میں بھی وہ جماعتوں اور مسلح صورت میں گھومتے تھے۔ تاہم ابھی تک تیندوے نے دن کے وقت کوئی بھی واردات نہیں کی تھی۔ صبح منہ اندھیرے اسے کئی مختلف مواقع پر دیکھا گیا تھا۔

اس صورتحال میں میں گملا پور پہنچا۔ مجھے اس تیندوے کے بارے میرے دوست جیپسن نے بتایا تھا جو ضلعی مجسٹریٹ تھا۔ ابتدائی گفتگو سے اندازہ ہوا کہ دیہاتی تیندوے سے اتنے خوفزدہ ہیں کہ وہ کچھ بھی نہیں بتائیں گے۔ یہ لوگ قدیم مشرقی توہم پرستی کا شکار تھے۔ ان کا خیال تھا کہ یہ تیندوا ایک مجسم شیطان ہے اور وہ اس کے خلاف کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ اگر وہ اپنے گھروں میں رک کر موت کا انتظار نہیں کر سکتے تو اس کا واحد حل علاقہ چھوڑ دینا ہے۔

جلد ہی مجھے اندازہ ہو گیا کہ ان لوگوں سے مدد کی توقع رکھنا فضول ہے۔ کئی لوگوں نے تو صاف کہہ دیا کہ اگر انہوں نے ایک لفظ بھی بتایا تو یہ شیطان سب سے پہلے انہی کو آن دبوچے گا۔ تاہم یہ افراد سرگوشیوں میں بات کرنے پر آمادہ تھے۔

اس رات میں نے گاؤں کے درمیان میں کرسی ڈالی اور اس پر بیٹھ گیا۔ میرے عقب میں ایک بارہ فٹ بلند مکان تھا۔ احتیاطاً میں نے اس مکان کی چھت اور منڈیر پر کانٹوں اور گوکھروؤں کی ایک موٹی تہہ بچھوا دی تاکہ تیندوا چھت پر سے مجھ پر حملہ نہ کر سکے۔ راتیں تاریک تھیں اور چاند کا کوئی امکان نہ تھا۔ تاہم مجھے یقین تھا کہ ستاروں کی روشنی اتنی تو ضرور ہوتی کہ وہ مجھے تیندوے کی موجودگی سے آگاہ کر دیتی۔

چھ بجے شام سے ہی تمام لوگوں نے گھروں میں گھس کر دروازے بند کر لئے اور میں کرسی پر اکیلا بیٹھا تھا۔ چائے کا تھرماس، کمبل اور کچھ بسکٹ میرے پاس تھے۔ بھری رائفل میری گود میں اور ٹارچ اور پائپ میرے ہاتھوں میں تھے۔ اضافی تمباکو اور ماچس بھی ہمراہ تھیں۔ دن نکلنے تک مجھے انہی کے ساتھ گزارا کرنا تھا۔

سورج غروب ہوتے ہی میں کافی پریشان ہوا کیونکہ ابھی ستاروں کو نکلنے میں کافی دیر تھی۔ اس کے علاوہ گاؤں کے مغربی جانب موجود پہاڑیاں قبل از وقت اندھیرے کا سبب تھیں۔ اگر وہ نہ ہوتیں تو ابھی سے اتنا اندھیرا نہ چھاتا۔

میں رائفل ہاتھ میں تیار لئے اور مسلسل تاریکی میں ادھر ادھر دیکھ رہا تھا کہ شاید تیندوا دکھائی دے جائے۔ مجھے اندازہ تھا کہ جنگلی جانور اور مویشی مجھے تیندوے کی موجودگی سے آگاہ کر دیں گے۔ پورے گاؤں پر موت کی سی خاموشی طاری تھی۔ صاف لگ رہا تھا کہ یہ سب لوگ میری آخری چیخیں سننے کے لئے بے تاب ہیں۔

وقت گذرتا رہا اور یکے بعد دیگرے ستارے نمودار ہوتے رہے۔ ساڑھے سات بجے تک اتنی روشنی ہو چلی تھی کہ میں گلی کے دونوں سروں تک صاف دیکھ سکتا تھا۔ میری ہمت بڑھ گئی۔ آدم خور کو متوجہ کرنے کے لئے میں نے وقفے وقفے سے کھانسنے کی کوشش کی۔ پھر کچھ دیر بعد اپنے آپ سے باتیں کرنا شروع کر دیں۔ مجھے امید تھی کہ اگر آدم خور نزدیک ہوا تو میری آواز سن کر لازماً ادھر کا رخ کرے گا۔

مجھے علم نہیں کہ آپ میں سے کسی نے خود کلامی اور بھی با آواز بلند کرنے کی کوشش کی ہو؟ چاہے وہ کسی آدم خور کو متوجہ کرنے کے لئے ہو یا پھر کسی اور وجہ سے۔ مجھے اندازہ تھا کہ میری خود کلامی سے دیہاتی لوگ کیا کچھ نہیں سوچ رہے ہوں گے۔ لیکن یقین جانیں کہ خود کلامی بلند آواز سے کرنا بہت مشکل کام ہے۔ خصوصاً جب آپ آدم خور کا بھی انتظار کر رہے ہوں۔

نو بجے رات تک میں نے سوچا کہ کیوں نہ گاؤں کا ایک چکر لگا لیا جائے۔ کسی قدر ہچکچاہٹ کے ساتھ میں نے خود کلامی جاری رکھتے ہوئے اپنی جگہ چھوڑی اور گلی کے دونوں سروں تک باری باری چکر لگایا۔ وقتاً فوقتاً اپنے عقب میں بھی دیکھ لیتا۔ جلد ہی مجھے اپنی حماقت کا بخوبی اندازہ ہو گیا۔ آدم خور کسی بھی مکان کی چھت، کوڑے کے ڈھیر یا پھر کسی بھی موڑ پر چھپا میرا انتظار کر رہا ہوگا۔ فوراً ہی میں نے اپنی چہل قدمی روک دی اور واپسی کا رخ کیا۔ جب اپنی کرسی پر بیٹھنے لگا تو اپنی بحفاظت واپسی پر خدا کا شکر ادا کیا۔

وقت بہت آہستگی سے گذرتا رہا۔ گھنٹے صدیوں کی طرح بیتتے رہے۔ اس وقت تک موسم کافی سرد ہو چلا تھا اور پہاڑیوں کی طرف سے کافی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ میں نے کمبل اوڑھا اور چند بسکٹ کھا کر ڈھیر سارا تمباکو بھی استعمال پی ڈالا۔ دو بجے تک مجھے نیند آنے لگی۔ میں پھر چائے اور بسکٹ سے فارغ ہو کر یخ بستہ پانی سے اپنے منہ پر ہلکے ہلکے چھینٹے مارے اور تھوڑی دیر تک اٹھک بیٹھک کی۔ اب میں پھر سے ہوشیار ہو گیا۔ ساڑھے تین بجے اچانک بادل گھر آئے اور اتنی تاریکی چھا گئی کہ گز بھر دور کی چیز بھی دکھائی نہ دیتی۔ اب میں بالکل تیندوے کے رحم و کرم پر تھا۔ میں نے ہر نصف منٹ کے بعد ٹارچ جلا کر ادھر ادھر ڈالنا شروع کر دی۔ مجھے اندازہ تھا کہ اس طرح میں تیندوے خبردار ہو سکتا ہے۔ مجھے اپنی جان بچانا زیادہ اہم لگا۔ یہ بھی امکان تھا کہ روشنی دیکھ کر تیندوا بھاگنے کی بجائے اسی طرف ہی آتا اور اس طرح مجھے اس پر فائر کرنے کا موقع مل جاتا۔ صبح تک یہی سلسلہ جاری رہا۔

چند گھنٹے میں نے اب سو کر گذارے اور پھر دوپہر کو دیہاتیوں سے سوال جواب شروع کئے۔ اس بار انہوں نے نسبتاً دوستانہ انداز میں جوابات دیئے۔ شاید اس کی وجہ میرا کل رات زندہ بچ جانا رہی ہو یا پھر میری خود کلامی کو وہ روحوں اور جن بھوتوں سے گفتگو سمجھ رہے ہوں۔ اب انہوں نے آدم خور کے بارے مزید معلومات مہیا کیں۔ آدم خور ایک بڑے علاقے میں سرگرم تھا اور وہ کسی جگہ شکار کر کے گم ہو جاتا اور پھر کہیں دور جا کر دوسرا شکار کرتا۔ اس نے کبھی بھی دو شکار ایک ہی جگہ مسلسل نہیں کیئے تھے۔ اس سے مجھے اندازہ ہوا کہ گملا پور کو ہی مستقل ٹھکانہ بنائے رکھنا بہتر ہے کہ یہاں تین ہفتوں سے کوئی واردات نہیں ہوئی تھی۔ اس طرح مجھے ادھر ادھر بھاگنا بھی نہ پڑتا۔ دوسرا یہ بھی اہم تھا کہ چیتا دن میں کبھی بھی نہیں دکھائی دیتا اس لئے جگہ جگہ مارے پھرنے سے ایک ہی جگہ ٹک کر اس کا انتظار کرتا۔ یہ بھی پتہ چلا کہ آدم خور کے اگلے دائیں پنجے میں کوئی نقص ہے جس کے باعث وہ زمین پر پاؤں پوری طرح نہیں رکھ سکتا۔ اس اطلاع کے باعث میں نے آگے چل کر آدم خور کے پنجوں کے نشانات بھی کامیابی سے پہچانے۔

دوپہر کا کھانا کھا کر میں نے رات کے لئے نیا منصوبہ بنایا۔ اس سے یقیناً مجھے کافی آرام ملتا اور کم خطرناک بھی ہوتی۔ اس کے مطابق ہم انسانی پتلا بنا کر اسے ایک کمرے میں رکھ دیتے اور کمرے کا دروازہ آدھا کھلا چھوڑ دیا جاتا۔ اسی کمرے میں دوسرے سرے پر لکڑی کے ڈبوں کے پیچھے میں چھپ جاتا۔ اگر آدم خور اندر آتا تو میں اسے آسانی سے نشانہ بنا سکتا تھا۔

میں نے یہ منصوبہ مقامی لوگوں کو بتایا تو یہ دیکھ کر میری حیرانی کی کوئی حد نہ رہی کہ وہ نہ صرف اس سے متفق ہوئے بلکہ کافی پرجوش بھی ہو گئے۔ جس مکان میں آدم خور نے چار افراد کو ہلاک کیا تھا، وہ میرے لئے مختص کر دیا گیا۔ انسانی پتلا بھی بنا دیا گیا جو تنکوں، ساڑھی، تکیئے اور صدری کی مدد سے بنایا گیا تھا۔ اسے دروازے کے سامنے نیم دراز حالت میں چھوڑ دیا گیا۔ اس کے پیچھے میں لکڑیوں کے کریٹوں کے پیچھے چھپ گیا۔ کمرہ دس فٹ لمبا اور بارہ فٹ چوڑا تھا۔ اتنے چھوٹے سے کمرے میں میری ناکامی کے امکانات بہت کم تھے۔ اسی طرح اگر آدم خور چھت سے داخل ہونے کی کوشش کرتا یا دیوار سے راستہ بناتا تو بھی میرے پاس اس سے نمٹنے کے لئے کافی وقت ہوتا۔ اس ڈرامے کو مزید حقیقت کا رنگ دینے کے لئے میں نے دونوں اطراف کے جھونپڑیوں کے مکینوں سے کہا کہ وہ رات بھر جتنی دیر ممکن ہو سکے مدھم آواز سے باتیں کرتے رہیں۔

اس تجویز پر یہ اعتراض ہوا کہ اس طرح آدم خور بازو والے کسی جھونپڑے میں داخل ہو تو کیا ہوگا۔ میں نے اس طرح کی صورتحال میں فوراً ان کی مدد کو پہنچنے کا وعدہ کیا۔ اس صورت میں میں نے انہیں عام انداز میں شور مچانے کو کہا تاکہ آدم خور خبردار نہ ہو۔ عام شور آدم خور نے بہت بار سنا ہوا تھا اور وہ اسے بالکل بھی اہمیت نہ دیتا تھا۔ اس طرح دونوں اطراف کے مکین بھی جاگتے رہتے۔

چھ بجے تک ہر چیز اپنی جگہ پر تیار تھی۔ سارے گاؤں کے لوگ اپنے اپنے گھروں میں دروازے مقفل کر کے پناہ لے چکے تھے۔ میرے والے جھونپڑے کا دروازہ ادھ کھلا تھا۔ سورج غروب ہوتے ہی تاریکی چھائی اور پھر کچھ دیر بعد تاروں کی روشنی میں وہ منظر صاف دکھائی دینے لگا جو دروازے کے کھلے حصے کے سامنے تھا۔ میرے بالکل سامنے ہی پتلا موجود تھا۔ وقتاً فوقتاً مجھے ساتھ والے گھروں سے لوگوں کی آوازیں سنائی دیتی رہیں۔

گھنٹوں پر گھنٹے گزرتے رہے۔ اچانک چھت سے کھڑکھڑاہٹ کی آواز سنائی دی۔ میں فوراً ہی چوکنا ہو گیا۔ لیکن یہ آواز کسی چوہے کی تھی۔ چوہا اچانک چھت سے فرش پر گرا اور پھر بھاگ کر میری طرف آیا اور میرے اوپر سے ہوتا ہوا دوبارہ چھت میں غائب ہو گیا۔ اب ہمساؤں کی آواز بند ہو چکی تھی جس سے مجھے اندازہ ہوا کہ وہ لوگ اس بات سے قطع نظر کہ آدم خور ان کے قریب بھی موجود ہو سکتا ہے، سو چکے ہیں۔

ساری رات میں جاگتا رہا۔ کبھی کبھار پائپ کا اکا دکا کش لگا لیتا یا پھر چائے کی چسکی سے گزارا کرتا۔ ساری رات چوہوں کی بھاگ دوڑ جاری رہی۔ صبح کی روشنی ہوتے ہی مٰں بے سدھ سو گیا۔

اگلی صبح بہتر نتائج کے لئے اور یہ سوچ کر کہ شاید آدم خور اس بار ادھر آئے، میں نے کل والی حرکت پھر دہرائی۔ اس بار رات کافی چونکا دینے والی نکلی۔ مجھے آج تک اس کی یاد نہیں بھولی۔

چھ بجے تک میں پھر اپنی جگہ پر تھا۔ آدھی رات تک سابقہ رات والی روٹین چلتی رہی۔ وہی ہمساؤں کی آوازیں، وہی چوہوں کی بھاگ دوڑ وغیرہ۔ دس بجے کے فوراً بعد تیز ہوا چل پڑی اور رفتہ رفتہ طوفان میں بدل گئی۔ آسمان پر طوفانی بادل چھا گئے اور کمرے کے دروازے سے اب مجھے کچھ بھی دکھائی نہ دیتا تھا۔ پھر جلد ہی بارش شروع ہو گئی۔ مجھے اندازہ تھا کہ تیندوے عموماً پانی کو پسند نہیں کرتے۔ اس لئے یہ تیندوا بھی کہیں دبکا ہوا بارش تھمنے کا انتظار کر رہا ہوگا۔ میں نے جھپکی لینے کی ٹھانی۔

بارش کے باعث مجھے ہمسائیہ گھروں کی آوازیں سنائی دینا بند ہو گئیں۔ انسانی پتلے کو گھورتے گھورتے مجھے نیند آ گئی۔

میں کتنی دیر سویا رہا، کہنا مشکل ہے۔ لیکن بہرحال کچھ نہ کچھ تو وقت گذرا ہی ہوگا۔ اچانک ہی میری آنکھ کھل گئی اور فوراً ہی اندازہ ہو گیا کہ کچھ گڑبڑ ہے۔ ایک عام بندہ جب نیند سے بیدار ہو تو اسے سنبھلنے میں کچھ نہ کچھ وقت لگتا ہے۔ میری جنگل کی تربیت کچھ اس طرح کی ہوئی تھی کہ بیدار ہوتے ہی مجھے صورتحال کا فوراً ادراک ہو جاتا ہے۔ بارش تھم چکی تھی اور کسی حد تک بادل بھی چھٹ چکے تھے۔ دروازے سے آنے والی روشنی اب کچھ دکھائی دینے لگی تھی۔ پتلا ویسے ہی نیم دراز حالت میں تھا۔ اچانک مجھے ایسا لگا کہ کچھ عجیب سی بات ہوئی ہے۔ پتلے نے حرکت کی اور اچانک نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ فوراً ہی چیتے کی غراہٹ سنائی دی۔ مجھے اب جا کر اندازہ ہوا کہ تیندوا نہ صرف کمرے میں داخل ہو چکا ہے بلکہ اسے پتلے کے جعلی ہونے کا بھی علم ہو چکا ہے۔ کمرہ اتنا تاریک تھا کہ تیندوے کا سایہ سا بھی تک نہ دکھائی دے رہا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ وہ زمین پر اتنا جھکا ہوا ہو کہ دکھائی نے دیا ہو۔

ٹارچ روشن کرتے ہی میں نے جست لگائی اور اپنی کمین گاہ سے نکلا۔ کمرہ خالی تھا۔ میں نے فوراً باہر نکل کر دونوں اطراف میں روشنی ڈالی لیکن موڑ تک گلی کے دونوں سرے خالی تھے۔ میں نے سوچا کہ تیندوا ابھی کہیں نزدیک ہی چھپا ہوا ہوگا اس لئے میں نے گلی کے ایک سرے تک چلنا شروع کر دیا۔ ہر موڑ، گھر یا کوڑے کے ڈھیر کے پاس سے بڑی احتیاط سے گذرتا۔ اگرچہ ٹارچ کی روشنی میں میں نے ہر ممکن جگہ چھان ماری لیکن وہ گم ہو چکا تھا۔ اب مجھے اندازہ ہوا کہ یہ درندہ کتنا مکار ہے۔ جونہی میری چھٹی حس نے مجھے نیند سے بیدار کیا، ویسے ہی تیندوے کی چھٹی حس نے اسے میری موجودگی کے بارے بھی نہ صرف خبردار کر دیا بلکہ یہ بھی بتا دیا کہ مقابلہ کسی عام انسان سے نہیں بلکہ ایسے شخص سے ہے جو اس کے خاتمے پر کمر بستہ ہے۔ شاید وہ میری ٹارچ کی روشنی نے اسے فرار ہونے پر مجبور کیا تھا اور وہ خاموشی اور آہستگی سے فرار ہو گیا۔ اس رات میں نے گملا پور کی تمام گلیاں چھان ماریں لیکن آدم خور جیسے آیا تھا ویسے ہی غائب ہو گیا۔

میں دل ہی دل میں اپنی غفلت پر سخت شرمندہ تھا کہ کیوں سو گیا اور ساتھ ہی ساتھ میں اس درندے کے خلاف اپنے آپ کو مزید تیار کر رہا تھا۔

اگلی صبح میں نے تیندوے کے پنجوں کے نشانات دیکھے جہاں سے وہ گاؤں میں داخل ہوا تھا۔ نرم کیچڑ میں یہ نشانات بالکل واضح تھے۔ پہلی بار ان کا معائینہ کرتے ہوئے میں نے اس کے اگلے دائیں پنجے کے نشانات کو بغور دیکھا۔ تیندوا اسے اس طرح رکھتا تھا کہ وہ محض ہلکا سا ہی زمین سے لگتا تھا اور اس نشان کو بطور پنجہ نہیں پہچانا جا سکتا تھا۔ یہ بات صاف ہو گئی کہ ماضی میں کسی حادثے کے باعث تیندوے کو آدم خوری پر مائل ہونا پڑا۔ آگے چل کر جب میں نے آدم خور کے پنجے کو دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ جانور ان دنوں پھیلی ہوئی ایک وبائی بیماری سے ہلاک شدگان کی لاشوں کو کھانے کا عادی تھا۔ پنجہ زخمی ہونے کے بعد اسے موقع مل گیا اور وہ آدم خوری کرنے لگا۔

مجھے اب تک یہ بھی اندازہ ہو چکا تھا کہ اس درندے میں کم و بیش ایک عام انسان جتنی سوجھ بوجھ کی صلاحیت پائی جاتی ہے اور وہ شاید ہی سابقہ رات کے تجربے کے بعد گملا پور کا رخ کرے۔

مجھے اب اپنا ٹھکانہ تبدیل کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اس بار میں نے اچھی طرح سوچ سمجھ کر دیوار بٹہ نامی گاؤں کا رخ کیا۔ یہ یہاں سے اٹھارہ میل دور اور پہاڑیوں کی دوسری طرف تھا۔ راستے میں پانی کی ایک نالی تھی جس کے کنارے ایک بڑے نر شیر کے پنجوں کے نشانات ظاہر تھے۔ یہ نشانات اتنے تازہ تھے کہ ان میں سے پانی ابھی بھرنا شروع ہوا تھا۔ خیر ابھی تو مجھے تیندوے کا پیچھا کرنا تھا۔ میں دیوار بٹہ شام پانچ بجے پہنچا۔

یہاں کے باشندے اپنے گھروں کے دروازے مقفل کرنے ہی والے تھے کہ میں پہنچا۔ بمشکل ہی ان سے میں مختصر بات کر سکا۔ ان کا خیال تھا کہ آدم خور کا اس طرف چکر اب کسی بھی وقت متوقع تھا کہ وہ یہاں کافی دنوں سے نہیں آیا تھا۔ اس کا پچھلا چکر مہینے بھر پہلے لگا تھا۔ آدم خور آج تک کسی جگہ ایک ماہ تک گم نہیں رہا تھا۔

میں نے فوراً ہی گاؤں کے سب سے بلند مکان کی دیوار کے ساتھ ٹیک لگائی اور اس سے قبل چھت پر کافی سارے کانٹے بچھا دیئے تاکہ عقب اور اوپر سے حملے سے بچ سکوں۔ یہ کانٹے دیہاتیوں نے قریب ہی کے کھیت سے اٹھائے تھے اور میں رائفل تانے ان کی نگرانی کرتا رہا۔

گملا پاور کی نسبت یہ بہت چھوٹا سا گاؤں تھا۔ مجھے اندازہ تھا کہ جنگلی پرندوں اور جانوروں نے مجھے تیندوے کی آمد سے قبل بخوبی آگاہ کر دینا ہے۔ میرا کام صرف ان آوازوں کو پوری توجہ سے سننا ہے۔

وقت بہت تیزی سے گزرتا رہا اور جلد ہی ہلال افق پر دکھائی دینے لگا۔ جنگلی مرغ کی آواز کبھی کبھار سنائی دے جاتی۔ مور بھی بولتے رہے۔ گاؤں کی یہ گلی غلاظت اور گندگی سے بھری ہوئی تھی۔ تاروں کی مدھم روشنی میں بمشکل ہی گلی دکھائی دے رہی تھی۔ ساڑھے آٹھ بجے ایک سانبھر بولا اور پھر بولتا ہی چلا گیا۔ لازماً اس نے کسی درندے کو دیکھا ہوگا۔ اب وہ درندہ تیندوا ہے یا پھر شیر، اس کے بارے تو وقت ہی بتاتا۔

اب سانبھر چپ ہو گیا۔ پندرہ منٹ بعد مجھے شیر کی ہلکی سی غراہٹ سنائی دی اور پھر خاموشی چھا گئی۔ یہ شکار کی تلاش میں نکلے ہوئے شیر کی عام بولی تھی۔ اس میں جنگل کے جانوروں کے تنبیہ پوشیدہ تھی کہ جنگل کا بادشاہ شکار پر نکلا ہوا ہے۔

وقت گزرتا رہا۔ اچانک میں نے گلی کے سرے پر حرکت محسوس کی۔ بھری ہوئی رائفل کو اٹھا کر میں نے نشانہ لیا اور قریب آنے کا انتظار کرتا رہا۔ کیا یہ تیندوا ہی ہے؟ کیا آدم خور تیندوا اس طرح کھلے عام گلی میں بیچوں بیچ عام رفتار سے چلتا ہوا میرے پاس آتا؟ یہ جانور کافی چھوٹا اور کمزور دکھائی دیتا تھا۔ بیس گز کے فاصلے سے میں نے ٹارچ روشن کی جو رائفل کی نال پر فٹ تھی۔

طاقتور ٹارچ کی روشنی نے پوری گلی کو روشن کر دیا۔ یہ جانور ایک عام کتا نکلا جو سردی اور بھوک سے سکڑا ہوا اور ٹھٹھرتا ہوا میری طرف آ رہا تھا۔ روشنی ہوتے ہی اس نے رک کر اس کی طرف دیکھا اور اپنی دم ہلانے لگا۔

اس تنہائی میں کتے کی آمد کو میں نے تہہ دل سے خوش آمدید کہا۔ اسے بلانے کے لئے میں نے دو بار چٹکی بجائی۔ دم ہلاتا ہوا وہ میرے پاس پہنچا۔ میں نے اسے چند بسکٹ دیئے جو اس نے فوراً کھا لئے اور ممنونیت سے میری طرف دیکھنے لگا۔ شاید وہ کئی دن کا بھوکا تھا۔ پھر وہ میرے قدموں میں دبک کر سو گیا۔

وقت گذرتا رہا اور نصف شب آ پہنچی۔ ایک بڑے الو کی آواز جنگل کے سرے سے آئی اور ماحول خاصا پراسرار ہو گیا۔

ایک بجا، دو بجے اور پھر تین۔ میں بار بار ادھر ادھر گھورتا رہا۔ خوش قسمتی سے آسمان بالکل صاف تھا اور تاروں کی مدھم روشنی بھی کافی دور تک منظر دکھا رہی تھی۔

اچانک ایک نامعلوم پرندے کی آواز آئی۔ صاف لگ رہا تھا کہ اس نے تیندوے کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ کتا بھی میرے قدموں میں بیدار ہو کر اچانک ہوشیار ہو گیا۔ منٹ پر منٹ گذرتے رہے اور اچانک کتا اب پوری طرح کھڑا ہو گیا۔ اس کے کان کھڑے تھے اور پورے بدن پر کپکپی طاری تھی۔ اس کے حلق سے ہلکی سے غراہٹ کی آواز نکلی۔ میں نے اس کی نظروں کا پیچھا کیا۔ وہ گاؤں کے درمیان سے آنے والی طرف گلی کے موڑ کو دیکھ رہا تھا۔

میں نے اب اپنی پوری توجہ ادھر مرکوز کر دی۔ اچانک میں نے گلی کے سرے پر ایک سائے کو حرکت کرتے دیکھا جو اپنی جگہ سے ہٹ کر میری جانب والے کنارے پر آ گیا تھا۔ چند لمحے بعد پھر حرکت ہوئی، اس بار نزدیک تر۔

میں نے ٹارچ کے بٹن پر انگوٹھا رکھ دیا۔ چند منٹ مزید گزرے اور میں نے ساے کو ایک مکان کی چھت کی طرف جست لگاتے دیکھا۔ اس بار فاصلہ کوئی بیس گز رہا ہوگا۔ مجھے اندازہ ہوا کہ تیندوے نے براہ راست سامنے سے آنے کی بجائے میرے اوپر چھت سے حملہ کرنے کی ٹھانی ہے۔ گلی کے تمام مکانات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے تھے۔

میں فوراً کھڑا ہو کر دیوار کے ساتھ لگ گیا۔ یہاں منڈیر تقریباً ڈیڑھ فٹ آگے نکلی ہوئی تھی۔ میری انگلی رائفل کے ٹریگر پر تھی اور انگوٹھا ٹارچ پر۔

چند سیکنڈ بعد مجھے اندازہ ہوا کہ تیندوا چھت پر موجود کانٹوں کو ہٹانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ناکام ہو کر وہ بالکل خاموش ہو گیا۔ مجھے اب اس کے نئے مقام کا اندازہ نہ تھا۔

مزید پندرہ منٹ شدید پریشانی میں گزرے اور میں بار بار ہر طرف دیکھتا رہا کہ شاید تیندوا کسی اور جانب سے حملہ نہ کر دے۔ کتا ایک بار پھر میرے قدموں سے نکل کر گلی کے درمیان کی طرف بھاگا اور پھر منہ اٹھا کر میرے پیچھے والے مکان کے کنارے کی طرف بھونکنےھ لگا۔

اس کی اس حرکت نے میری جان بچا لی۔ پانچ سیکنڈ بعد ہی چیتا اس کنارے سے نکل کر میری طرف جھپٹا۔ ٹارچ روشن کرتے ہوئے میں نے رائفل بمشکل کولہے تک اٹھائی اور فائر کر دیا۔ اعشاریہ 405 بور کی گولی تیندوے کو لگی لیکن چونکہ وہ جست لگا چکا تھا، میں نے فوراً ہی ایک جانب چھلانگ لگائی۔ تیندوا مکان سے ٹکرا کر گر گیا۔ اس دوران میں نے مزید دو گولیاں اس کے جسم میں اتار دیں۔

تیندوا اپنی جگہ پر ہی پڑا رہا اور اس کے جسم پر لرزہ طاری تھا۔ اس کے جبڑے کھلتے بند ہوتے رہے۔ میرے نئے دوست یعنی اس کتے نے فوراً بھاگ کر تیندوے کے گلے پر اپنے دانت جما دیئے۔

اس طرح وہ مکار تیندوا اپنے انجام کو پہنچا جس کی مکاری کو شاید ہی کوئی دوسرا درندہ پہنچ سکے۔

اگلی صبح کھال اتارتے ہوئے اس کے اگلے دائیں پنجے سے گولی کی بجائے سیہہ کے دو کانٹے نکلے۔ دو انچ بھر اندر دھنسے ہوئے تھے اور پھر ٹوٹ گئے تھے۔ یہ کافی پرانے لگتے تھے کہ ان کے گرد ہڈی پھر سے اپنی جگہ پیدا ہو گئی تھی۔ اس سے آدم خور اپنے پنجے کو زمین پر نہ لگا سکتا تھا اور چلتے وقت لنگڑاتا تھا۔

اس کتے کو میں گھر لایا اور نہلا دھلا کر کھانا دیا اور اس کا نام "نیپر" رکھا۔ کئی سال سے یہ میرا قابل اعتماد رفیق ہے۔ اس نے چند بسکٹوں کے بدلے میری جان بچائی تھی۔

Saturday, November 3, 2007

تگراٹھی کے شیر

اگر میسور کی ریاست میں شموگا کے ضلع کی مغربی سرحد کی طرف سفر کریں تو بنگلور اور اس کے گرد و نواح کی نسبت یہاں کے مناظر اچانک ہی بدل جاتے ہیں۔ یہاں آپ ہر طرف سے سدا بہار جنگلات میں گھر جاتے ہیں جو برساتی نالوں سے سیراب ہوتے ہیں۔ یاں بارش کی سالانہ اوسط 120 انچ سے زیادہ ہے۔ شموگا اور اس کے مغرب میں سالانہ بارش 250 انچ سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ اگمبے اور اس کے مغرب میں چیل کے بلند و بالا درخت ہیں جن کی چوٹیاں آسمان کو چھوتی نظر آتی ہیں۔ درختوں پر کائی اور فرن وغیرہ عام ملتے ہیں۔ سبزے کی یہاں اس خطے میں بہتات ہے۔ یہاں کانٹے دار جنگلات نہیں پائے جاتے۔ ہر ممکن جگہ پر سبزہ اور گھاس اگی ہوتی ہے۔ جھینگر اور مینڈک کے سوا کسی جانور کی آواز سنائی دینا محال ہے۔ درختوں کی نچلی شاخوں سے لٹکی ہوئی جونکیں عام ہیں۔ کسی بھی جاندار کے قریب سے گزرنے پر یہ اس سے چمٹ جاتی ہیں۔ کپڑوں کے اندر بھی گھس جاتی ہیں اور خون چوسنا شروع کر دیتی ہیں۔ آپ کو ان کی موجودگی کا علم تک نہیں ہوگا کہ ان کے کاٹنے سے درد نہیں ہوتا۔ نظر پڑنے پر یا رستے ہوئے خون کے ان کی کارگزاری کا پتہ چل سکتا ہے۔ اگر جونک کو خون چوسنے کے دوران نوچنے کی کوشش کی جائے تو اس جگہ پر ایک بڑا سا زخم بن جاتا ہے۔ اگر جونک پر تھوڑا سا نمک یا پھر تمباکو کا عرق لگا دیا جائے تو یہ فوراً ہی الگ ہو جاتی ہیں۔ اس طرح بننے والا زخم معمولی نوعیت کا ہوتا ہے اور جلد ہی بھر جاتا ہے۔

یہ علاقہ کنگ کوبرا کا بھی مسکن ہے۔ کنگ کوبرا کوبرا کے خاندان کا سب سے بڑا سانپ ہے۔ اس کی لمبائی پندرہ فٹ کے لگ بھگ ہوتی ہے۔ اس کا رنگ گہرا زیتونی اور جسم پر ہلکے پیلے سے دائرے بنے ہوتے ہیں۔ اس کے سر پر کوئی نشان نہیں ہوتا۔ بڑی جسامت کے برعکس اس کی رفتار بہت تیز ہوتی ہے۔ اس کی خوراک دوسرے سانپ ہوتے ہیں۔ یہ بہت بد مزاج ہوتا ہے۔ انسان کو دیکھتے ہی حملہ کر دیتا ہے۔ انڈوں پر بیٹھی سپنی زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔ میرا اس سانپ سے دو بار آمنا سامنا ہوا ہے۔ ایک بار جب میں اپنے اکیوریم کے لئے ایک نایاب قسم کی مچھلی تلاش کر رہا تھا اور دوسری بار پھولوں کے ایک کنج کو دیکھتے ہوئے۔ دونوں بار ہی مجھے دیکھ کر یہ سانپ فرار ہو گئے۔

اونچے درختوں کی چوٹیاں نہایت خوبصورت پھولوں کا مسکن ہیں۔ یہ پھول مختلف بیلوں کے بھی ہو سکتے ہیں اور ان درختوں کے اپنے بھی۔ گرمیوں میں گلابی، پیلے، سفید غرض لاتعداد قسم کے رنگوں کے پھول عجب بہار دکھاتے ہیں۔

یہاں اس ضلع میں دریائے شیراوتی بھی موجود ہے۔ یہاں اس کی چار شاخیں ہیں۔ جوگ کے مقام پر یہ دریا ایک ساڑھے نو سو فٹ بلند آبشار کی مانند گرتا ہے۔ یہاں چاندنی رات میں چاند کی روشنی سے بننے والی کہکشاں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔

تگراٹھی کا گاؤں ساگر قصبے سے گیارہ میل دور اور جنوب مشرق میں واقع ہے۔ یہ سدا بہار جنگلات کی مشرقی سرحد پر واقع ہے۔ یہاں کاشتکاری زوروں پر ہے۔ یہاں کی مٹی انتہائی زرخیز اور بارش بکثرت ہوتی ہے۔ اس لئے یہ جگہ زراعت کے لئے انتہائی پرکشش اور منافع بخش ہے۔ قدرتی گھاس بھی کثرت سے اگتی ہے اور زرعی زمینوں کو چھوڑ کر ہر ممکن جگہ پر اگتی ہے۔ دن کے وقت گاؤں سے مویشی یہاں چرنے کے لئے بھیجے جاتے ہیں۔

جنگلی بھینسے سے بڑے جانور یہاں کم ہی ملتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ گھنے جنگلات، پسو اور جونکیں ہیں۔ ابتدا میں چرندوں کی کمی کی وجہ سے یہاں شاید ہی کوئی درندہ پایا جاتا ہو۔ لیکن کاشتکاری اور چراگاہوں میں اضافے اور نئے مویشیوں کی تعداد جوں جوں بڑھ رہی ہے، درندوں کی تعداد بھی بڑھتی جا رہی ہے۔

تگراٹھی بھی ایک ایسا ہی علاقہ تھا۔ میں اس علاقے میں اکثر آتا جاتا رہتا تھا اور مجھے کبھی بھی چار سے زائد شیروں کی اطلاع نہیں ملی۔ فروری 1939 میں مجھے معلوم ہوا کہ ایک ہی دن میں 8 مویشی مارے گئے ہیں۔ یہ تمام ہلاکتیں تگراٹھی کے آس پاس ہی ہوئی تھیں۔ لازما یہ 8 مختلف درندوں کا کام تھا۔

8 شیروں کی موجودگی کے باعث یہاں تیندوے اور چیتے نہ ہونے کے برابر تھے۔ جو تھے ان کا گزارہ آوارہ کتوں، بکریوں اور کبھی کبھار مرغیوں پر تھا۔ اگر شیروں کو کہیں چیتا دکھائی دے جائے تو وہ اسے مار کر کھا بھی جاتے ہیں۔

چیتل کے علاوہ اس جگہ شاید ہی کوئی اور جنگلی جانور ملتا ہو۔ یہاں کے تقریباً تمام ہی شیر لاگو یعنی مویشی خور ہیں۔ ان کی اکثریت بہت طاقتور اور موٹی ہوتی ہے جو کہ اس شیر سے مختلف ہوتے ہیں جس کا گزارا حقیقتاً جنگلی چرندوں پر ہوتا ہے۔

میں اب آپ کو شام راؤ باپت کی کہانی سناتا ہوں کہ اس نے انہی شیروں میں سے ایک شیر کو کیسے اپنے گھر کے باغیچے میں ہی ہلاک کیا۔ شام راؤ بائیس برس کا ایک نوجوان ہے اور اپنے والدین کی اکلوتی اولاد۔ اس نے گھر اور اس کے ساتھ موجود زرعی زمین کا نظام بخوبی سنبھالا ہوا ہے۔ اسے اپنے کام سے حقیقی معنوں میں محبت ہے۔ اس کے کھیتوں میں چاول، راگی کی فصلیں اور ناریل اور پام کے درخت ہیں۔ ان درختوں پر انگوروں کی بیلیں چڑھی ہوئی ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ بہت سارے مویشیوں کا مالک بھی ہے۔ وہ حقیقی معنوں میں ایک خوشحال زمیندار تھا۔

ایک دن ایک موٹے شیر نے شام راؤ کے خوشحال گھر سے خراج وصول کرنے کا سوچا۔ یکے بعد دیگرے شام راؤ کے مویشی اس کا شکار ہونے لگے۔ شام راؤ کے پاس ایک پرانی بندوق بھی تھی۔ اس نے بندوق میں گولی والا کارتوس بھرا اور شیر کا انتظار کرنے کے لئے ایک جانور کی لاش کے ساتھ درخت پر بیٹھ گیا تاکہ شیر پلٹے اور وہ اسے گولی مار سکے۔ شیر بھی ایک کایاں نکلا اور اس نے شکل نہ دکھائی۔ شاید وہ پہلے کسی شکاری کی گولی کھائے ہوئے تھا۔

اب شیر کی ہمت بڑھ چکی تھی۔ ایک رات کو وہ شام راؤ کے گھریلو باغیچے کی باڑ پھلانگ کر اندر داخل ہوا اور باڑے کے گیٹ پر لگے بانس کو ہٹانے کی کوشش کرنے لگا۔ اندر بند مویشیوں نے اچھا خاصا ہنگامہ برپا کر دیا۔ شام راؤ کی آنکھ اس ہنگامے سے کھل گئی۔ اس کے باہر نکلنے سے قبل ہی شیر فرار ہو گیا۔

اگلی رات کو شام راؤ نے باڑے کی چھت پر ایک محفوظ پناہ گاہ بنا کر شیر کا انتظار کرنے کی ٹھانی۔ رات کو 10 بجے شیر آیا اور دروازے کو کھرچنے لگا۔ شام راؤ نے کوئی فٹ بھر کے فاصلے سے اس پر بندوق کی دونوں نالیں خالی کر دیں۔ شیر بغیر کوئی آواز نکالے وہیں ڈھیر ہو گیا۔ یہ نہایت فربہہ اور مویشی خور شیر کی بہترین مثال تھا۔

منظر بدلتا ہے۔ اب ساڑھے گیارہ کا وقت ہے اور خوب دھوپ نکلی ہوئی ہے۔ میں اپنی بیوی کے ہمراہ فارسٹ بنگلے میں ہوں۔ یہ بنگلہ تگراٹھی سے اڑھائی میں دور ہے۔ دوپہر کا کھانا قبل از وقت تیار ہے اور میری بیوی چند سینڈوچ تیار کر رہی ہے۔ اچانک بنگلے سے متصل جنگل سے کاکڑ (ایک قسم کا ہرن جس کی آواز بھونکنے سے مشابہہ ہوتی ہے) کی آواز آئی۔ یہ آواز مسلسل آتی رہی۔ میں نے فوراً بوٹ پہنے اور رائفل اٹھائے باہر نکلا۔ فائر لائن کو عبور کر کے میں جنگل میں گھسا۔ کاکڑ ابھی تک بولے جا رہا تھا۔ میں ہر ممکن کوشش کر رہا تھا کہ اس تک کم سے کم وقت میں اور بغیر شور کئے پہنچ جاؤں۔ جلد ہی میں اس جگہ آ پہنچا جہاں کاکڑ موجود تھا۔ اس کا رخ سامنے کی طرف تھا اور مسلسل بولے جا رہا تھا۔ میں دوبارہ جنگل میں گھسا تاکہ دوسری طرف سے چکر کاٹ کر اس طرف جا سکوں جس طرف کاکڑ دیکھ کر شور کر رہا تھا۔ یہاں ایک جگہ ٹیک کے درختوں کا گھنا جھنڈ تھا۔ ٹیک کے پتے زمین پر موجود تھے۔ اگر ان پر پیر پڑتا تو بہت زیادہ شور پیدا ہوتا۔ اس لئے میں رک گیا اور ایک بہت بڑے ٹیک کے ہی درخت کے تنے کے پیچھے چھپ گیا اور سامنے دیکھنے لگا۔ اچانک کچھ فاصلے پر حرکت ہوئی۔ میں نے پوری توجہ ادھر مرکوز کی۔ ایک شیر، بالکل بے خبر پشت کے بل سو رہا تھا۔ اس کی دم بار بار ہل رہی تھی۔ دم کے ہلنے سے مجھے اس کی موجودگی کا علم ہوا۔

سوئے ہوئے شیر کو ہلاک کرنا شکار کی روح کے خلاف ہوتا۔ دوسرا مجھے اس شیر سے کوئی دشمنی بھی نہیں تھی۔ میں نے رائفل جھکا کر درخت سے ٹیک لگائی اور شیر کو دیکھنے لگا۔ شیر کوئی بیس منٹ تک مزید سوتا رہا۔ اس کے بعد اچانک بنگلے کی جانب سے میری بیوی کی آواز آئی جو مجھے کھانے کے لئے بلا رہی تھی۔ شیر فوراً اپنی نیند سے بیدار ہوا اور نیم وا آنکھوں سے بنگلے کی طرف دیکھنے لگا۔

خاموشی سے میں اس کے سامنے نکل آیا۔ میری رائفل گولی چلانے کے لئے تیار حالت میں تھی۔ میری آمد کی آہٹ سن کر شیر نے فوراً رخ بدلا اور نہایت حیرت سے میری طرف دیکھنے لگا کہ یہ انسان اتنی خاموشی سے اس کے اتنے قریب پہنچ گیا۔

پھر اس نے ہلکی سی میاوں کی اور پھر مڑ کر جنگل کی طرف چل پڑا۔ میں نے اسے جانے دیا۔ جلد ہی وہ نظروں سے اوجھل ہو گیا۔

ایک دوسرے موقع پر میں اور میری بیوی رات کے وقت جنگل کی سیر کرنا چاہ رہے تھے۔ ہم نے ایک بیل گاڑی کرائے پر حاصل کی۔ رات کے وقت ہم جنگل میں روانہ ہوئے۔ ہمارا پروگرام ٹارچ کی روشنی میں جنگل کا مشاہدہ کرنے کا تھا۔ ہم ابھی بنگلے سے میل بھر ہی گئے ہوں گے کہ اچانک میری بیوی کی ٹارچ کی روشنی میں دو روشن آنکھیں دکھائی دیں۔ یہ آنکھیں جنگل میں کافی دور تھیں۔ ہم نے بیل گاڑی رکوائی اور نیچے اتر کر اس طرف چل پڑے۔ میری بیوی کی ٹارچ کا رخ مسلسل اسی طرف تھا جہاں آنکھیں دکھائی دے رہی تھیں۔ میری بیوی ٹارچ جلائے آگے آگے اور میں رائفل چھتیائے پیچھے پیچھے تھا۔ اب تک وہ آنکھیں گم ہو چکی تھیں۔ ہم نے وہاں ایک پگڈنڈی دیکھی اور اس پر چل پڑے۔ تھوڑی دیر بعد وہ آنکھیں پھر چمکیں۔ خوش قسمتی سے یہاں گھاس وغیرہ بالکل نہ تھی اور آسانی سے اس طرف جا سکتے تھے۔ ابھی ہم چند ہی قدم بڑھے ہوں گے کہ جھاڑی سے شیرنی نکل آئی۔ اس نے پہلے تو ہمیں دیکھا پھر مڑ کر جھاڑی کی طرف، جہاں سے وہ نکلی تھی۔ مجھے بہت عجیب لگا۔ اس کےپیچھے اس کے دو بچے بھی نکل آئے اور ماں سے لپٹ گئے۔

شیرنی ہمیں چند لمحوں تک دیکھتی رہی اور پھر جنگل کی طرف چل پڑی۔ ساتھ ہی اس نے ہلکی سی میاؤں کی آواز بھی نکالی جو شاید بچوں کو بلانے کا اشارہ تھا۔ بچے بھی فوراً اس کے پیچھے چل پڑے اور جلد ہی وہ نظروں سے اوجھل ہو گئے۔

میری بیوی نے ٹارچ اسی طرف جلائے رکھی کہ شیرنی پلٹ نہ آئے۔ اچانک ہمیں دوسری طرف سے ہلکی سی غراہٹ سنائی دی۔ ہم لرز گئے۔ ہمارے سامنے اب ایک بڑا نر شیر موجود تھا۔ شاید یہ پورا خاندان پیاس بجھانے ندی پر آیا ہوا تھا۔ اتنے چھوٹے بچوں کے ساتھ شیرنی عموماً نر شیر سے الگ ہی رہتی ہے کیونکہ نر عموماً چھوٹے بچوں کو مار دیتا ہے۔

اب صورتحال کافی گھمبیر ہو چکی تھی۔ نر یا مادہ، کسی بھی طرف سے حملے کا امکان بڑھ چکا تھا۔ میری بیوی نے کافی ہمت کا مظاہرہ کیا اور ثابت قدم رہی۔ نر نے ہلکی سی غراہٹ کے ساتھ حرکت کی اور اس طرف چل پڑا جہاں اس کا بقیہ خاندان گیا تھا۔

اس طرح یہ صورتحال، جس کا انجام کافی بھیانک بھی ہو سکتا تھا، بخوبی سنبھل گئی۔ بیچارہ گاڑی بان گاڑی میں اکیلا تھا اور اس نے شیروں کی آوازیں سن لی تھیں۔ پھر شاید اس کے بیلوں نے شیروں کی بو محسوس کر لی یا پھر ان کی غراہٹ سن لی اور گاڑی کے ساتھ ہی سر پٹ دوڑے۔ آگے چل کر راستہ ایک ندی سے گزرتا ہے۔ یہاں آ کر پانی اور کیچڑ میں بیل گاڑی پھنس گئی۔ اب گاڑی بان نے خوف سے چلانا شروع کر دیا اور ساتھ ہی بیل بھی شیروں کی وجہ سے ڈکرانے لگے۔ ہم یہ سمجھے کہ شیروں نے بیل گاڑی پر حملہ کر دیا ہے۔ ہم فوراً اس طرف بھاگے۔ وہاں جا کر ہمیں اندازہ ہوا کہ سب خیریت ہے۔ صرف گاڑی بان حد سے زیادہ خوفزدہ تھا۔ ہمیں خوشی ہوئی کہ شیروں نے گاڑی بان یا پھر بیلوں سے الجھنے کی کوشش نہیں کی تھی۔

میسور میڈیکل سروس کا میرا ایک دوست ڈاکٹر سٹینلے کو اس کے محکمہ کی طرف سے تگراٹھی بھیجا گیا تھا کہ یہاں ملیریا اب وبائی صورت اختیار کر چکا تھا۔ اکثر مقامی باشندے اس کی لپیٹ میں تھے۔ یہ ڈاکٹر بہت منچلا تھا اور اسے شیروں کے شکار کا کافی شوق تھا۔ اس نے اس دوران کئی شیر بھی مارے تھے۔ ایک رات اسے ایک زچگی کے لئے بلاوا آیا۔ اسے بیلندور نامی وادی جانا تھا۔ اپنے پیشے سے عشق کرنے والا ڈاکٹر فوراً دواؤں اور اوزاروں والا بیگ، اپنی بندوق، پانچ سیل والی ٹارچ اور پٹیاں وغیرہ لے کر بیل گاڑی میں سوار ہوگیا۔

ابھی وہ راستے میں ہی تھا کہ ایک شیر نے چھلانگ لگا کر سڑک عبور کی اور کنارے ہی بیٹھ کر گاڑی کو گزرتے ہوئے دیکھنے لگا۔ سٹینلے نے بندوق سے گولی والا کارتوس چلایا۔ گولی کھاتے ہی شیر اچھلا اور دھاڑتا ہوا جنگل میں گم ہو گیا۔

ڈاکٹر نے زیادہ توجہ نہ دی اور آگے بڑھ گیا۔ اس نے زچہ کی مشکل دور کی اور رات زچہ بچہ کے ساتھ گزاری۔ اگلی صبح وہ ایک مقامی چھوٹے سے لڑکے کو ساتھ لے کر پلٹا۔ اس نے گاڑی بان کو اس جگہ چلنے کو کہا جہاں اس نے رات کو شیر پر گولی چلائی تھی۔

اس جگہ پہنچ کر اس نے دیکھا کہ وہاں شیر کا خون کافی مقدار میں بکھرا ہوا تھا۔ ڈاکٹر نے پیچھا کرنے کی ٹھانی۔ گاڑی بان نے عذر کیا کہ بیل اکیلے نہیں چھوڑے جا سکتے۔ ڈاکٹر لڑکے کے ساتھ ہی اس طرف چل پڑا۔ تھوڑا آگے چل کر انہیں شیر زمین پر پڑا ہوا دکھائی دیا۔ ڈاکٹر سمجھا کہ شیر مر چکا ہے۔ اس نے یقین کرنے کے لئے LG کا کارتوس شیر کی پچھلی ران پر چلایا۔ کارتوس لگتے ہی شیر اچھلا اور ڈاکٹر پر حملہ کر دیا۔ ڈاکٹر نے فوراً ہی شیر کے منہ میں دوسری نالی سے گولی چلائی۔ اگلے ہی لمحے شیر ڈاکٹر پر تھا اور اس نے ڈاکٹر کی کھوپڑی پر سے کافی ساری کھال نوچ لی تھی۔ اب لڑکا بیچارہ چیختا ہوا بھاگا۔ اب شیر نے ڈاکٹر کو چھوڑا اور لڑکے پر حملہ کر دیا۔ اس نے لڑکے کو پہلو سے جا پکڑا۔ ڈاکٹر نے اپنے زخم کی پروا کئے بغیر بندوق کو دوبارہ بھرا ہی تھا کہ شیر لڑکے کو چھوڑ کر فرار ہو گیا۔

لڑکا بیچارہ بری طرح زخمی تھا۔ اس کے پہلو، کمر اور سینے پر زخم تھے۔ تین پسلیاں بھی ٹوٹ چکی تھیں۔ ڈاکٹر نے اپنی پھٹی ہوئی قمیض سے لڑکے کے لئے پٹیاں بنا کر اس کے زخم باندھے اور پھر اسے کمر پر لاد کر بیل گاڑی تک پہنچا۔ وہاں سے وہ سترہ میل دور ساگر کی طرف چلے۔ ساگر سے انہوں نے شموگا کا رخ کیا جو پینتیس میل مزید دور تھا۔ شموگا میں ضلعی بڑا ہسپتال تھا۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ لڑکا اور ڈاکٹر، دونوں بچ گئے۔ ڈاکٹر کو اس کے افسران بالا سے اچھی طرح ڈانٹ پھٹکار پڑی کہ وہ بطور ڈاکٹر ہی اپنا کام جاری رکھے اور شیروں کا شکاری بننے کی کوشش نہ کرے۔

ان دونوں کے بچ جانے کی وجہ دراصل شیر کا شدید زخمی ہونا تھا۔ ڈاکٹر کے دوسرے فائر سے شیر کا نچلا جبڑہ بیکار ہو گیا تھا۔ لڑکے اور ڈاکٹر، دونوں کے زخموں پر شیر کے صرف اوپر والے دانتوں کے نشانات تھے۔ اگر شیر کا نچلا جبڑہ بھی سلامت ہوتا تو دونوں کا زندہ بچنا ناممکن ہو جاتا۔

اس دن کے بعد گاؤں کے لوگوں نے ہفتے بھر تک جنگل سے شیر کے بار بار دھاڑنے کی آوازیں سنیں۔ ایک دن اچانک خاموشی چھا گئی۔ لوگ سمجھے کہ شیر جنگل میں کہیں دور جا کر مر گیا ہوگا۔ اس کی لاش کسی کو نہ مل سکی۔

سٹینلے نے مجھے دو مزید واقعات سنائے۔ پہلے میں جب وہ شیر کے انتظار میں مچان پر بیٹھا تھا کہ ایک کنگ کوبرا نے اس درخت پر چڑھنا شروع کیا۔ ڈاکٹر نے اسے اس وقت تو بھگا دیا لیکن اندھیرا چھاتے ہی اسے سانپ کی واپسی کا وہم ستانے لگا۔ یہ وہم اتنا بڑھا کہ اسے اندھیرے میں ہی گاؤں پلٹنا پڑا۔

دوسری بار جب وہ مچان پر بالکل ہی سامنے بیٹھا تھا کہ اسے شیر نے دیکھ لیا۔ ساری رات شیر اس درخت کے آس پاس چکر لگاتا رہا اور دھاڑتا بھی رہا۔ اس دوران بوندا باندی بھی شروع ہو گئی۔ شیر کے جانے کے بعد بھی ڈاکٹر کی ہمت نہ ہوئی کہ وہ نیچے اترتا کیونکہ کافی اندھیرا باقی تھا۔

تگراٹھی کے قابل رسائی حصوں میں گھومتے ہوئے ایک بار میں نے ایک نوعمر شیرنی کی لاش دیکھی۔ اس کے منہ اور سینے میں سیہہ کے کل تئیس کانٹے پیوست تھے۔ ایک کانٹے نے تو اس کی دائیں آنکھ ہی نکال دی تھی۔ اس سے کچھ دور ایک تیندوے کی ادھ کھائی لاش بھی موجود تھی۔ بظاہر ایسا لگتا تھا کہ شیرنی نے سیہہ کو مارنا چاہا تھا کہ اس نے اتنے سارے کانٹے کھائے۔ آنکھ بھی گنوائی۔ بھوک سے شاید نڈھال ہو کر خوراک کی تلاش میں اس کی مڈھبیڑ تیندوے سے ہوئی۔ دونوں کی لڑائی ہوئی اور آخر کار شیرنی نے تیندوے کو مار ڈالا۔ وہ اسے کھا ہی ہی تھی کہ موت نے اسے بھی آ لیا۔ شاید سیہہ والے زخم اور تیندوے سے لگنے والے زخموں نے کچھ دیر بعد اثر دکھایا ہوگا۔ لاشیں ادھ سڑی ہوئی تھیں اور یقین سے کچھ کہنا مشکل ہی تھا۔

بیلندور کی وادی میں ایک عجیب اور پراسرار شخصیت "بدھیا" بھی تھی۔ مقامی لوگ اسے کالے جادوگر کے طور پر جانتے تھے۔ اس کے بارے مشہور تھا کہ وہ جادو ٹونے سے کئی افراد کو مار بھی چکا ہے۔ یہ شخص میرا اچھا دوست تھا۔ اس بار رات گئے باتوں کے دوران اس نے مجھے ایک لکڑی سے بنا ہوا گول سا تختہ دیا۔ یہ تختہ نما چیز کوئی چھ انچ قطر کی ہوگی۔ بقول اس کے، یہ تختہ بہت ہی دور دراز کے جنگلوں کی لکڑی سے بنایا گیا تھا۔ اس نے درخواست کی کہ میں اس تختے کو شکار کی مہمات کے دوران اپنے پاس رکھوں۔ اگر کبھی کوئی جانور نہ مل رہا ہو تو سورج کے غروب ہونے کے بعد میں اس تختے کو اپنی رائفل یا بندوق کی نالی سے تین بار اوپر سے نیچے مس کروں۔ اس نے یقین دلایا کہ آئیندہ چوبیس گھنٹوں میں وہ جانور اسی رائلف یا بندوق سے مارا جائے گا۔ مجھے یہ بتاتے ہوئے شرمندگی ہو رہی ہے کہ میں نے اس ٹونے کو ایک بار نہیں، کئی بار آزمایا اور ہر بار یہ کامیاب ہوا ہے۔ آپ اسے قسمت کہیں یا اتفاق، یہ آپ کی مرضی۔

آہ، ایک دن میرا یہ دوست "بدھیا" ملیریا کی لپیٹ میں آ کر مر گیا۔ اس کا کالا جادو بھی اس کو ملیریا سے نہ بچا سکا۔

اب کچھ ذکر گوجا کے آدم خور کا بھی ہو جائے۔ گوجا تگراٹھی سے چھ میل دور ایک اور وادی ہے۔ تگراٹھی سے املی گولا کی فارسٹ چوکی کے درمیان ہی گوجا واقع ہے۔ یہ چوکی کراڈی پٹہ کے گیم ریزرو کی سرحد پر ہے جسے ہز ہائی نس مہاراجہ میسور نے اپنے ذاتی شکار کے لئے مختص کیا ہوا ہے۔ چونکہ اس جنگل میں مویشی لے جانے کی ممانعت ہے، شیروں کو مویشی کھانے کو نہیں ملتے۔ اس جنگل کے فوراً ساتھ ہی مویشیوں کی موجودگی شیروں کے لئے کافی کشش کا باعث ہے۔ دوسرا شیر اتنے عقلمند بھی نہیں ہوتے کہ وہ کسی فرضی سرحد سے باہر نہ نکلیں۔ اس لئے شیروں کو جنگل میں رہنے سے زیادہ جنگل سے باہر نکلنے میں دلچسپی رہتی ہے۔

1938 میں ایک شیر نے عجیب نیا کام شروع کیا۔ وہ ریزور جنگل سے نکلتا، مویشی مارتا، اسے کھاتا اور پھر فوراً ہی ریزور جنگل میں چلا جاتا۔ اس جنگل میں کسی کو جانے کی اجازت نہ تھی۔ ظاہر ہے کہ یہ شیر جلد ہی بہت موٹا ہو گیا۔ مقامی لوگ اسے مویشی چور کے نام سے جاننے لگے۔

جیسے انسان وقت کے ساتھ ساتھ بہادر ہوتا جاتا ہے، اسی طرح یہ شیر بھی نڈر اور چالاک ہوتا چلا گیا۔

یہ شیر ابھی اتنا بھی چالاک اور نڈر نہ ہوا تھا کہ انسانوں پر ہی ہاتھ صاف کرنے لگ جاتا لیکن روز بروز اس کی گشت طویل سے طویل تر ہوتی گئی۔ اس طرح وہ ایک دن گواجا میں آن پہنچا۔ یہاں اس نے بستی سے ڈیڑھ میل دور ایک نالے میں رہائش رکھی۔ یہاں سے وہ مویشیوں کے ریوڑوں پر حملہ کرتا۔ ہر ہفتے دو سے تین خوب فربہ اور بہترین نسل کے جانور اس کا شکار بنتے۔

مجھے اس شیر کے لاگو یعنی مویشی خور ہونے کے بارے کئی خطوط ملے۔ میں نے اس لئے توجہ نہ دی کہ یہ ایک عام سی بات تھی۔ دوسرا اتنے ڈھیروں مویشیوں میں سے اگر چند ایک شیر کا نوالہ بن بھی جائیں تو کسی کو کیا نقصان پہنچتا۔ کم از کم انسان تو اس کی دست برد سے بچے ہوئے تھے۔

اس شیر کی ہمت اتنی بڑھ گئی کہ دو مواقع پر جب چرواہوں نے اسے بھگانے کے لئے شور مچایا تو یہ الٹا ان کی طرف غراتا ہوا لپکا۔ اگرچہ اس نے ابھی تک کسی انسان پر حملہ نہیں کیا تھا لیکن مجھے اندازہ ہو چلا تھا کہ وہ وقت دور نہیں جب وہ انسانوں پر حملہ کرنا شروع کر دے گا۔

ایک صبح ساڑھے نو بجے میں بنگلور سے اڈیری کی جانب میل ٹرین پر سوار ہو کر جا رہا تھا۔ وہاں سے ساڑھے تین میل کے پیدل سفر کے بعد میں تگراٹھی پہنچا۔ مجھے پرانے دوستوں نے بہت گرمجوشی سے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ میری تواضع کافی سے کئی گئی کیونکہ کھانا تیار ہونے میں کچھ وقت باقی تھا۔ میں نے کھانے کی تیاری کے وقفے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شیر کے بارے معلومات لینا شروع کر دیں۔ مجھے علم ہوا کہ یہ شیر عام شیروں کی طرح ہے اور اب تک اپنی مویشی خوری کی عادت کے باعث کافی بدنام ہو چکا ہے۔ کھانے کے بعد بیل گاڑی میں سوار کر میں گواجا کی طرف روانہ ہوا۔ راستہ کافی خستہ تھا اس لئے ہم شام چھ بجے پہنچے۔ میں نے جتنی دیر وہاں کے باشندوں سے باتیں کیں، میرے بندوں نے میرا خیمہ وہاں سے تین فرلانگ دور ایک نالے کے کنارے لگا دیا۔ یہاں سے شیر کوئی میل بھر دور کہیں رہتا تھا۔

مجھے لوگوں نے بتایا کہ شیر نے پچھلا شکار کوئی دو دن قبل کیا تھا۔ اب اس کا اگلا شکار ایک دو دن میں متوقع تھا۔

اگلے دن ایک بجے اطلاع آئی کہ شیر نے ایک اور پالتو جانور مار ڈالا ہے۔ فوراً ہی میں جائے حادثہ پر پہنچا۔ وہاں جا کر معلوم ہوا کہ شیر نے کھلے میدان میں گائے کو مارا ہے۔ چاروں طرف کم از کم تین سو گز تک کوئی بھی چھپنے کی جگہ نہ تھی۔ شیر گائے کو ہلاک کر کے نالے میں لے گیا۔ یہ وہی نالہ تھا جس کے کنارے میرا خیمہ نصب تھا۔ نالے کے کنارے نرم مٹی پر شیر کے گھات لگانے اور پھر گائے پر حملہ آور ہونے کے نشانات واضح تھے۔ یہاں اس نے جب حملہ کیا تو گائے نے کچھ دوڑنے کی کوشش تو کی لیکن شیر نے اسے فوراً ہی جا لیا اور مار ڈالا۔ اس کے بعد شیر نے گائے کو اٹھایا اور نالے میں لے گیا۔ یہاں کسی قسم کے گھیسٹنے کے نشانات نہ تھے۔ شیر کے پنجوں کے نشانات کافی گہرے ثبت تھے کیونکہ شیر کا اپنا وزن اور پھر گائے کا اضافی وزن اس نرم مٹی پر کافی گہرے نشانات چھوڑ گیا۔

میں نے ان نشانات کا کافی احتیاط سے جائزہ لیا اور پھر شیر کا پیچھا شروع کر دیا۔ امید تھی کہ میں جلد ہی شیر یا اس کے شکار تک پہنچ جاؤں گا۔ مجھے اندازہ تھا کہ میری آمد کو محسوس کر کے شیر سامنے ضرور آئے گا۔ لیکن ایسا نہ ہوا۔ میرا خیال ہے کہ شیر کی چھٹی حس نے اسے خبردار کر دیا تھا کہ اسے میرے سامنے ہرگز نہ آنا چاہیئے۔ شیر مجھ سے کچھ ہی دور گھاس میں چھپا غراتا رہا۔ بالاخر اس نے غراہٹ کے ساتھ فرار اختیار کی۔

یہاں ایک نہایت ہی مناسب درخت موجود تھا۔ میں نے اس پر اپنی چارپائی والی مچان بندھوائی اور شام چار بجتے بجتے اس پر بیٹھ گیا۔ شیر رات کو آٹھ بجے آیا اور سیدھا آ کر درخت کے نیچے کھڑا ہوگیا۔ مجھے اس کی آمد کا اندازہ اس کی سانس لینے کی آواز سے ہوا۔ اس نے اتنی احتیاط سے قدم رکھے کہ ایک بھی سوکھا پتہ نہ چرمرایا۔ اس نے پھر خود کو چاٹنا شروع کر دیا۔ پھر اس نے درخت کی چھال پر اپنے پنجے تیز کرنا شروع کر دیئے۔ اس وقت وہ پچھلے پنجوں پر کھڑا تھا۔ اس کی نظر مچان پر پڑ گئی اور ہلکی سی آواز کے ساتھ اس نے چھلانگ لگائی اور گم ہو گیا۔ بقیہ رات وہ نہ پلٹا۔

اگلے دن میں نے نالے کے کنارے ایک بچھڑا بندھوا دیا جہاں شیر کی رہائش کافی نزدیک تھی۔ میں نے خود ایک نزدیکی درخت پر مچان باندھی اور اس پر بیٹھ گیا۔ یہ درخت نالے پر کوئی 60 ڈگری پر جھکا ہوا تھا۔

3 بجے میں بیٹھا۔ ساڑھے پانچ بجے مجھے شیر کے ہانپنے کی آواز آئی۔ وہ نالے کے دوسرے کنارے سے ایک مردہ گائے کو گھسیٹ کر لا رہا تھا۔ وہ کوئی 80 گز دور ہوگا کہ میں نے اس کی گردن کا نشانہ لیتے ہوئے فائر کیا۔ فائر کرتے ہی شیر اچانک اپنی جگہ سے آگے بڑھا۔ اس طرح گولی اسے گردن کی بجائے کچھ پیچھے جا کر لگی جو مہلک نہ ثابت ہوئی۔ اس نے غراہٹ کے ساتھ چھلانگ لگائی اور نالے سے ہوتا ہوا غائب ہو گیا۔ میں درخت سے نیچے اترا اور بچھڑے کو لے کر گواجا واپس آیا۔ مجھے اندازہ تھا کہ اگلی صبح آرام سے خون کے نشانات کی مدد سے شیر کو تلاش کر کے ہلاک کر دوں گا۔ تاہم میرا یہ اندازہ غلط نکلا۔

اگلی صبح میں نے خون کے نشانات کا پیچھا شروع کیا۔ میرے ساتھ ہر طرح سے قابل اعتبار دو مقامی افراد بھی تھے۔ یہ نشانات نالے سے ہوتئے ہوئے کافی دور جا کر باہر نکلے۔ ہم نے بہت دور تک پیچھا جاری رکھا لیکن شیر کہیں بھی نہیں رکا تھا۔ دو میل دور جا کر شیر نے ایک جگہ تھوڑا سا دم لیا تھا۔ میرا خیال تھا کہ وہ یہاں سے املی گولا اور پھر اس کے بعد موجود گیم ریزور کی طرف جا رہا ہے۔ اگر وہ ایک بار ادھر پہنچ جاتا تو وہ ہماری پہنچ سے باہر ہو جاتا۔ گیم ریزرو میں آتشیں اسلحہ حتٰی کہ زخمی شیر کا تعاقب کرتے ہوئے بھی لے جانا ممنوع تھا۔

آگے بڑھتے ہوئے شیر مزید دو جگہوں پر رکا تھا۔ پہلی جگہ خون کافی مقدار میں بکھرا ہوا تھا۔ دوسری جگہ خون کی مقدار کافی کم تھی۔ اس کے بعد سے خون کے نشانات کم سے کم تر ہوتے چلے گئے۔ شاید اس کی کھال کے نیچے موجود چربی کی موٹی تہہ نے زخم کو ڈھانپ لیا تھا۔

ہم جلد ہی املی گولا کے نزدیک پہنچ گئے۔ یہاں سے گیم ریزرو کوئی میل بھر ہی دور تھا۔ یہاں ہماری قسمت نے ہمارا ساتھ دیا۔ یہاں ایک ندی راستے میں پڑتی تھی جو کہ اس وقت لبالب بھری ہوئی تھی۔ یہاں سے شیر کے نشانات اوپر کی طرف مڑ گئے۔ شاید اس نے اپنا ارادہ بدل دیا تھا۔ شاید وہ پینے کے پانی کی تلاش میں تھا۔ یہاں ہم پہلے تالاب تک پہنچے۔ یہاں شیر نے پانی پیا تھا اور نشانات سے اندازہ ہوتا تھا کہ اس نے کچھ دیر آرام بھی کیا تھا۔ یہ نشانات کم از کم گھنٹہ بھر قبل کے ہوں گے۔ اس سے ہمیں مہمیز ملی۔ یہاں سے فرلانگ بھر دور ایک اور تالاب تھا۔ یہاں بھی شیر رکا تھا۔ یہاں شیر کے قدموں کے نشانات سے تازہ تازہ پانی ابھر رہا تھا۔ شاید شیر ہماری ہی آہٹوں سے گھبرا کر آگے بڑھ گیا ہوگا۔ یعنی وہ زیادہ دور نہیں تھا۔

یہاں سے میں نے ارادہ بدلا کہ تعاقب کرنے سے بہتر ہے کہ گھات لگائی جائے۔ پیچھے کرنے سے شاید شیر گھبرا کر گیم ریزور کی طرف جانے کا سوچتا جو کہ میل بھر ہی دور تھی۔ میں نے اپنے ساتھیوں کو اشارہ کیا کہ وہ درخت پر چڑھ جائیں اور میں خاموشی سے نالے کے کنارے چڑھ کر چل پڑا۔ یہاں سے میں نے نالے کے ساتھ ساتھ متوازی تیزی سے چلنا شروع کیا۔ نصف میل دور جا کر نالا پھر بل کھا کر سامنے آ گیا۔ یہاں میں نیچے اترا اور واپسی کا رخ اختیار کیا تاکہ شیر کو اس کی لاعلمی میں جا لوں۔ بدقسمتی سے شیر نے میری آہٹ سنی یا پھر اس کی چھٹی حس نے خبردار کر دیا اور وہ واپس مڑا اور گیم ریزرو کی طرف چل پڑا۔

یہاں سے میں نے خون کے اکا دکا نشانات کا پیچھا کیا جہاں وہ جھاڑی میں گھسا تھا۔ میں نے ایک سرے پر رک کر درخت کی اوٹ سے جھانکا تو شیر نہ دکھائی دیا۔ اگر میں اپنے ساتھیوں کو بلانے کی کوشش کرتا تو شیر خبردار ہو کر نکل جاتا۔ اتفاقاً میری نظر ہلتی ہوئی گھاس پر پڑی جو شیر کی حرکت کی چغلی کھا رہی تھی۔ میں نے اپنی جگہ سے حرکت کی اور گھاس میں چل پڑا۔ آگے چل کر گھاس کافی چھدری ہو گئی تھی۔ اچانک ہی میری اس پر پڑی اور اسی لمحے شیر نے مجھے دیکھا۔ میں نے اس کے دائیں پہلو پر فائر کیا۔ گولی کھاتے ہی اس نے مجھ پر حملہ کر دیا۔ مگر پانچ ہی قدم چل کر اس کی ہمت جواب دے گئی اور وہ نیچے گرا۔ میں نے اس پر دوسری گولی چلائی۔ دوسری گولی کھاتے ہی وہ اچھلا اور جھاڑیوں میں گھس گیا۔

میں نے سیٹی بجا کر ساتھیوں کو بلایا جو فائروں کی آواز سن کر پہلے ہی میری طرف روانہ ہو چکے تھے۔ جب وہ پہنچے تو میں نے انہیں تفصیل بتائی اور انہیں درخت پر چڑھ جانے کی ہدایت کی کہ وہ شیر کی موجودگی سے مجھے آگاہ کرتے رہیں۔ دونوں ایک دوسرے سے پچاس پچاس گز دور تھے۔ ہدایت یہ تھی کہ شیر کو دیکھتے ہی سیٹی بجا کر آگاہ کریں۔ میں خود نالے کی طرف چل پڑا کہ اگر شیر واپس پلٹے تو میں ادھر اسے روک سکوں۔

نالے میں چلنا انتہائی دشوار تھا۔ ہر لحظہ یہ خطرہ تھا کہ شیر کنارے سے، دائیں یا بائیں یا پھر عقب سے حملہ نہ کر دے۔ آدم خور شیر کے شکار میں یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ کبھی بھی زخمی شیر کا پیچھا کرتے ہوئے نالے میں نہ اترا جائے۔ اس بات کا قوی امکان ہوتا ہے کہ شیر نالے کے کنارے سے جست لگا کر شکاری کو بے خبری کے عالم میں دبوچ سکتا ہے۔ میں کافی نا امید ہو چلا تھا کیونکہ اب اس بات کا قوی امکان تھا کہ شیر کہیں کاواڈی بنڈا نہ جا کر مرے۔

پھولی ہوئی سانسوں اور بھری رائفل کے ساتھ اور ٹریگر پر انگلی رکھے میں نالے میں اترا تھا کہ شیر اگر جھاڑی میں چھپا ہوا ہو تو اسے ہلاک کر سکوں۔ اب اسے جھاڑی سے کیسا نکالا جاتا، یہ ایک الگ مسئلہ تھا۔

واپس لوٹ کر میں نے دونوں ساتھیوں کو بلایا اور مشورہ کیا۔ شیر کی اندازاً کسی خاص جگہ موجودگی کو جانے بغیر اس جھاڑیوں بھرے قطعے میں گھسنا خودکشی ہوتا۔ اچانک ایک خیال کوندے کی طرح لپکا۔ میں نے نالے میں اتر کر اپنی قمیض اتاری۔ اس کے بازو اور گلے کو بند کر کے اس میں زیادہ سے زیادہ پتھر باندھ لئے۔ ایک ساتھی اس بیگ نما قمیض کو لے کر اوپر آیا اور ہم نے جھاڑیوں میں سنگ باری شروع کر دی۔ بالاخر شیر نے ہم سے 30 گز دور، دائیں جانب سے غراہٹ کی آواز نکالی۔

شیر یقیناً کافی زخمی تھا اور حرکت سے معذور بھی۔ اس کے باوجود ہر اس پتھر پر غراتا جو اس کے نزدیک گرتا۔

اپنے ساتھیوں کو سنگ باری جاری رکھنے کا کہہ کر میں چکر کاٹ کر اس خطے کے عقبی طرف سے آنے کی کوشش کرنے لگا۔ کچھ دیر بعد پیچھے پہنچا تو شیر کے غرانے کی آواز میرے سامنے سے آ رہی تھی۔ پتھر گرنے کی آواز بھی آ رہی تھی۔ جب تک مجھے شیر کی آواز سنائی دیتی رہی، میں آگے بڑھتا رہا۔ جونہی میں قریب پہنچا تو شیر نے شاید میری آمد کی آہٹ سنی اور خاموش ہو گیا۔ میرے ساتھیوں کو بھی اندازہ ہو گیا کہ شیر میری عقب سے آمد کو بھانپ چکا ہے۔ انہوں نے شیر کی توجہ ہٹانے کے لئے چند اور پتھر مزید تیزی اور دور پھینکے۔ شیر خاموش رہا۔

مجھے اندازہ تھا کہ اب میں بے حد محتاط ہو جاؤں۔ شیر کسی بھی لمحے حملہ کر سکتا ہے۔ میں رک گیا اور اپنے حواس مجتمع کئے۔ میں ہر ممکن آہٹ سننے کے لئے تیار تھا۔ وقت خاموشی سے گزرتا رہا۔ پتھر گرنے کی آواز آتی رہی۔ میرے اندر بڑھتے ہوئے خطرے کا احساس بڑھتا رہا۔ ہر وقت یہی محسوس ہو رہا تھا کہ شیر میرے نزدیک سے نزدیک تر ہو رہا ہے۔ اس خاموشی کو توڑنے کے لئے یا تو میں خود چیختا یا پھر ہٹ جاتا۔ ورنہ یہ خاموشی میرے اعصاب کو جکڑ رہی تھی۔

اچانک ہی میں پیچھے مڑا۔ اسی وقت دو جھاڑیوں کے درمیان شیر میرے عقب میں مجھ پر چھلانگ لگانے کے لئے بالکل تیار حالت میں تھا۔ ہماری آنکھیں ملتے ہی اس نے دھاڑ لگا کر حملہ کر دیا۔ اس دوران میری ونچسٹر رائفل دو بار بولی۔ دونوں گولیاں شیر کے منہ پر لگیں۔ میں ذرا سا ہٹا اور شیر میرے سامنے آ کر گرا۔ اس نے آخری بار ٹانگیں چلائیں اور چند ہی فٹ کے فاصلے سے میں نے ایک اور گولی اس کے دل میں اتار دی۔

گواجا کے اس بوڑھے شیر کی گیم ریزور واپس جانے کی تمام تر کوششیں ناکام ہو گئیں۔

پانا پتی کا پاگل ہاتھی

یہ ہاتھی، جس کے بارے میں یہ داستان لکھ رہا ہوں، دیگر ہاتھیوں کی مانند ایک چھوٹی جسامت کا نر ہاتھی تھا۔ اس کی کل اونچائی ساڑھے سات فٹ تھی۔ عموماً ہندوستانی ہاتھی کے اگلے پیر کے نشان کی گولائی کا مربع اس کی اونچائی کے برابر ہوتا ہے۔ اتنی سی جسامت کے برعکس اس میں مکاری، کینہ پروری اور انسانوں سے دشمنی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔

اس کا بیرونی صرف ایک دانت تھا۔ یہ کوئی ڈیڑھ فٹ لمبا ہوگا۔ کہا جاتا ہے کہ اس کا دوسرا دانت دریائے کاویری کے کنارے ایک لڑائی میں ٹوٹا تھا۔ یہ لڑائی غول کے بڑے نر سے ہوئی تھی۔ جب اس نوجوان نے غول کی ماداؤں پر بری نظر ڈالی تو غول کے بڑے نر اور سردار نے اسے غول سے نکال باہر کیا۔ اس نوجوان ہاتھی نے بدلے میں لڑائی کی ٹھانی۔

یہ اپنی نوعیت کی ایک عجیب لڑائی تھی۔ تجربہ، عمر اور طاقت میں اس سے کہیں بڑے ہاتھی نے اسے بری طرح مارا۔ اسے بہت بری طرح اور نہایت بے دردی سے کچلا اور نوچا گیا تھا۔ اس کے پہلو پر سردار کے دانتوں کے نشانات تھے۔ اس لڑائی کے باعث اسے غول چھوڑنا پڑا۔ چھوٹے موٹے زخموں کے علاوہ اسے دانت بھی گنوانا پڑا جو ظاہر ہے کہ بہت دن تک درد کی اذیت بھی جھیلنی پڑی ہوگی۔

اس حالت میں بھی وہ غول سے کچھ ہی فاصلے پر ان کے ساتھ ساتھ حرکت میں رہا۔ لیکن اسے گروہ میں شامل ہونے کی اجازت نہ تھی۔ اس طرح آوارہ گردی کے دوران میں اسے ایک دن پگڈنڈی پر ایک بیل گاڑی آتی دکھائی دی جس پر کٹے ہوئے بانس لدے ہوئے تھے۔ اس ہاتھی پر اچانک ہی دورہ پڑا اور اس نے اپنی لڑائی کا غصہ بیل گاڑی پر نکالنے کی ٹھانی۔ اس نے فوراً ہی ہلہ بول دیا۔ گاڑی بان نے ہاتھی کو دیکھتے ہی چھلانگ لگا کر دوڑ لگائی اور اس طرح بچ گیا۔ بیچارے بیل گاڑی میں جتے ہوئے تھے اور ان پر کافی وزنی لکڑی لدی ہوئی تھی۔ بیچارے اپنی موت کو سامنے دیکھ کر وہ بھاگ بھی نہ سکے۔ یہ ہاتھی جو اب انتقام کی آگ میں پاگل اور اندھا ہو رہا تھا، نے گاڑی کو ماچس کی تیلیوں کی طرح توڑ موڑ کر رکھ دیا۔ پھر وہ بیلوں کی طرف مڑا۔ ایک بیل کو اس نے سینگ سے سونڈ میں پکڑ کر ہوا میں اچھالا۔ اگلے دن جب بیل کی لاش ملی تو اس کا سینگ جڑ سے غائب تھا اور ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ کر اور کھال کو پھاڑتی ہوئی زمین میں گھسی ہوئی تھی۔ اب ہاتھی نے دوسرے بیل کا رخ کیا۔ خوش قسمتی سے دوسرا بیل گاڑی کے ٹوٹنے اور دوسرے بیل کے مارے جانے پر فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔

اس دن سے اس ہاتھی کی ہوا بگڑتی چلی گئی۔ دور دراز کے کئی مسافر اس کے پیروں تلے کچل کر، دانت کی زد میں آ کر، سونڈ میں جکڑ کر زمین پر پٹخے جانے یا پھر درخت سے ٹکرائے جانے سے ہلاک ہوئے۔

اس ہاتھی سے میری پہلی مڈبھیڑ اتفاقاً ہوئی تھی۔ میں "ہگینی کال" نامی جگہ گیا ہوا تھا۔ یہ پانی پتی سے 4 میل دور اور دیرائے کاویری کے کنارے واقع ہے۔ میرا ارادہ تھا کہ اختتام ہفتہ پر مہاشیر مچھلی کا شکار کھیلوں گا۔ اگر قسمت نے یاوری کی تو ایک آدھ مگرمچھ بھی ہاتھ لگ جائے گا۔ ان دنوں یہ مشہور ہو چلا تھا کہ یہ ہاتھی دریا عبور کر کے کسی دوسرے غول میں شامل ہو کر ادھر سے چلا گیا ہے۔

قیام کے دوسرے دن میں مچھلی کا شکار کھیل کر بنگلے کی طرف پلٹا۔ مجھے چائے کی طلب ہو رہی تھی۔ اچانک ساتھ ہی جنگل سے مور کی آواز آئی۔ میں چائے کو بھلا کر رات کے کھانے کے لئے مور کے سہانے خیال میں کھو گیا۔

میں نے دو عدد 1 نمبر کے کارتوس جیب میں ڈالے اور بندوق اٹھا کر اس طرف چل پڑا جہاں سے مور کی آواز سنائی دی تھی۔ یہاں آ کر میں ذرا رکا کہ مور کو تلاش کروں۔ میرا اندازہ تھا کہ مور اس وقت دریائے چنار کے خشک حصے میں ہوگا۔ دریائے چنار آگے چل کر دریائے کاویری سے جا ملتا ہے۔

ندی کی نرم ریت پر میرے ربر سول کے جوتے بالکل آواز پیدا نہ کر رہے تھے۔ یہاں مجھے مور کے پر پھڑپھڑانے کی آواز صاف سنائی دے رہی تھی۔ مور دریا کے دوسرے کنارے پر تھا۔ ابھی میں دریا کا خشک پاٹ عبور کر ہی رہا تھا کہ میں نے ایک فلک شگاف چنگھاڑ سنی۔ مجھ سے محض 50گز دور ہاتھی نمودار ہوا۔ اس کا رخ میری طرف تھا۔

ہاتھی کے دوڑنے کی رفتار بہت تیز ہوتی ہے۔ یہ ناممکن تھا کہ میں اس سے زیادہ تیز دوڑ پاتا۔ دوسرا ندی کے پاٹ کی ریت اتنی نرم اور بھربھری تھی کہ میں بھاگ بھی نہ سکتا۔ میں نے فوراً ہی ٹوٹے ہوئے ایک درخت کے تنے کی اوٹ لی اور باری باری بندوق کی دونوں نالیاں چلا دیں۔ اس وقت ہاتھی مجھ سے کوئی 30 گز دور ہوگا۔

کارتوسوں کے چلنے کا دھماکہ، بارود کا دھواں اور ننھے منے چھروں کی بوچھاڑ کا اتنا اثر ہوا کہ ہاتھی ذرا بھر رکا۔ میرے لئے اتنی مہلت کافی تھی۔ میں سر پر پیر رکھ کر دوڑا۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ میں اتنا تیز کیسے دوڑا۔ خالی بندوق میرے ہاتھ میں تھی۔ بنگلے پر پہنچ کر میں نے رائفل اٹھائی اور واپس اسی طرف دوڑ پڑا۔ اب دریائے چنار کے دونوں کنارے خالی پڑے تھے۔ ہاتھی دریا کی دوسری طرف جا کر جنگل میں گم ہو گیا تھا۔ اب چونکہ اندھیرا چھانے والا تھا تو میں نے اس پر زیادہ توجہ نہ دی۔

اگلے دن مجھے واپس بنگلور لوٹنا تھا جس کی وجہ سے میں یہاں مزید قیام نہیں کر سکتا تھا۔ اس طرح اس ہاتھی پر پہلی گولی چلانے کا سنہری موقع میں نے گنوا دیا۔

اس ہاتھی کو سرکاری طور پر پاگل قرار دے کر عام اعلان کرا دیا گیا تھا کہ اس ہاتھی کو مارنے پر 500 روپے یعنی 34 پاؤنڈ کا انعام دیا جائے گا۔ یہ اعلان بذریعہ ڈھنڈورچی اور بذریعہ اشتہار، ہر طرح سے کیا گیا تھا۔

اس علاقے کے ایک مشہور مقامی بندے نے اس ہاتھی کو مارنے اور انعام پانے کی ٹھانی۔ اس کی المناک کہانی کچھ یوں رہی۔

اعشاریہ 500 بور کی دو نالی ایکسپریس رائفل اس کے پاس تھی جو کالے بارود سے چلتی تھی۔ یہ رائفل اس کے اچھے دنوں کی یادگار تھی۔ وہ رائفل کے ہمراہ پانا پتی پہنچا۔ یہاں اسے معلوم ہوا کہ ہاتھی ساتھ والے جنگل میں موجود ہے۔ دریائے چنار کے کنارے جہاں میں کچھ ہی دن قبل ہاتھی کا شکار ہوتے ہوتے بچا، یہاں سے نزدیک ہی تھا۔ اس دریا کے ایک کنارے پر "ووڈا پٹی" کا گیم ریزرو اور دوسرے پر پناگرام بلاک ہے۔

یہ آدمی بیچارہ دو دن تک ہاتھی کی تلاش میں سرگرداں مارا مارا پھرتا رہا۔ تیسری رات اس نے اپنا خیمہ دریا سے دو میل اندر جنگل میں لگایا تاکہ رات بسر کی جا سکے۔ ہاتھی کے متعلق اس کا اور اس کے ہمراہیوں کا اندازہ تھا کہ وہ دریا کی دوسری طرف ہے۔ پھر بھی انہوں نے احتیاطاً خیموں کے گرد آگ جلا لی۔ اس نے اپنے ہمراہیوں کو ہدایت کی کہ وہ ڈھیر ساری لکڑیاں اکٹھی کر لیں تاکہ رات بھر آگ جلتی رہے۔

اس وقت جنگل بالکل پر سکون تھا۔ باری باری تمام افراد نیند اور تھکن سے بے حال ہو کر سوتے چلے گئے۔

علی الصبح ہاتھی اتفاقاً ادھر سے گذرا۔ اس وقت تک آگ دھیمی پڑ چکی تھی۔ جا بجا انگارے ہی دہک رہے تھے۔ عموماً ہاتھی اور دیگر جانور آگ کے نزدیک نہیں جاتے۔ شاید اس ہاتھی نے جب خیمے دیکھے تو اس پر وحشت غالب آ گئی۔ اس نے وہ جگہ تلاش کی جہاں آگ اور انگارے بالکل نہ تھے۔ ایک طویل چنگھاڑ کے ساتھ وہ ایک خیمے پر ٹوٹ پڑا۔

دوسرے خیمے کے افراد کی آنکھ چنگھاڑ سن کر کھل گئی اور وہ لوگ بھاگ نکلے۔ دوسرے خیمے کے مالک کو جاگنے یا اپنی رائفل استعمال کرنے کا موقع تک نہ ملا۔ ہاتھی نے اس خیمے کو اکھاڑ کر اس پر اپنی سونڈ پھیرنی شروع کر دی۔ جونہی سونڈ سے بیچارہ شکاری مس ہوا، ہاتھی نے اسے پکڑ کر سر سے اونچا اٹھایا اور پھر زمین پر پٹخ دیا اور اس پر اپنا پیر رکھ کر اسے کچل دیا۔ چند منٹ بعد شکاری کی جگہ خون اور قیمے کی ٹکیا سی پڑی تھی۔ ہاتھی ایک بار پھر جنگل میں گھس کر غائب ہو گیا۔

اس واقعے کے بعد حکومت نے اس ہاتھی کے مارنے پر انعام دگنا کر کے 1000 روپے کر دیا۔ اس انعام سے مجھے بھی لالچ ہوا کہ میں اس ہاتھی کو شکار کروں۔

پانا پتی پہنچ کر میں نے اس حالیہ حادثے کے مقام کا معائینہ کیا۔ مجھے اس ہاتھی کی درندگی پر حیرت ہوئی کہ وہ کیسے آگ کے دائرے میں گھسا ہوگا۔ وہ جگہ بالکل پاس ہی تھی جہاں ہاتھی نے شکاری کو ہلاک کیا تھا۔ اس وقت تک بیچارے شکاری کی باقیات تک کو کوے ہڑپ کر گئے تھے۔

پانا پتی لوٹ کر میں نے اپنی مدد کے لئے ایک مقامی چرواہے کو تیار کیا۔ یہ چرواہا جنگل سے بخوبی واقف اور اچھا کھوجی تھا۔ یہاں پر جگہ جگہ ہاتھی کے پیروں کے نشانات تھے۔ مسئلہ یہ تھا کہ تازہ نشانات کیسے تلاش کریں جس کا پیچھا کیا جا سکے۔ یہ کام بظاہر ناممکن سا لگتا تھا کیونکہ ہاتھی اب دریا کے دوسرے کنارے جنگل میں یا پھر اس طرف کی پہاڑیوں کی طرف نکل گیا ہوگا جو بمشکل 4 میل دور تھیں۔

"وڈا پٹی" والا کنارا دو میل چوڑی پھولدار گھاس سے ڈھکا ہوا تھا۔ یہ گھاس تقریباً دس فٹ بلند تھی اور نہایت خوبصورت پھولوں سے ڈھکی ہوئی تھی۔ یہ پھول صبح سویرے گرنے والی شبنم سے چمک رہے تھے۔ یہ گھاس اتنی گھنی تھی کہ یہاں گز بھر دور کی چیز بھی نہ دکھائی دیتی۔ ہاتھی کے گزرنے کے نشانات موجود تھے اور ہاتھی کے بوجھ تلے کچلے جانے والے پھولوں کے تنے اب آہستہ آہستہ دوبارہ اٹھ رہے تھے۔

اس گھاس کی پٹی کی چوڑائی 100 سے 200 گز تک تھی۔ یہاں پہاڑیاں بالکل متصل تھیں۔ ان میں گھسنتا اور پھولدار گھاس میں گھسنا یکساں خطرناک تھا۔ اس جگہ ہر طرف بانس کے درخت گرے ہوئے تھے جن کے باعث قدم بڑھانا نا ممکن تھا۔

ہم نے اس علاقے میں چار روز تک ہاتھی کی تلاش جاری رکھی۔ ہماری یہ تلاش دریائے کاویری سے لے کر 35 میل دور ایک بند تک جاری رہی۔ ہمیں کہیں بھی ہاتھی کے نشانات نہ ملے۔

پانچویں دن دوپہر کو میں اور میرا ساتھی کھوجی دوبارہ دریائے کاویری کے کنارے تھے۔ اس بار میں نے فیصلہ کیا کہ اس بار ہم دریا سے اوپر کی طرف تلاش کرتے ہیں۔ تین میل کا فاصلہ ہم نے گرے ہوئے درختوں، گھنی گھاس اور پتوں سے بڑی مشکل سے طے کیا۔ یہاں ہمیں ہاتھی کے پیروں کے بالکل تازہ نشانات ملے۔ یہ نشانات آج صبح کے تھے اور ہاتھی دوسرے کنارے سے اس طرف پہنچا تھا۔ یہ نشانات پاگل ہاتھی کے نشانات سے مماثل تھے۔

اب پیچھا کرنا آسان ہو گیا۔ نشانات نہ صرف تازہ اور واضح تھے بلکہ ہاتھی کے گزرنے کے باعث راستہ سا بھی بنا ہوا تھا۔

یہاں ہم لوگ نشانات کا پیچھا کرتے کرتے پہاڑی تک آن پہنچے۔ یہاں ہمیں ہاتھی کی لید کا ڈھیر دکھائی دیا۔ یہ لید تازہ تھی لیکن اس میں حرارت باقی نہیں تھی۔ ہم مزید آگے بڑھے۔ وادی میں پہنچ کر ہم نے لید کا ایک اور ڈھیر دیکھا۔ یہ بھی سرد ہو چکا تھا۔ یعنی ہاتھی اب بھی ہم سے کافی آگے تھا۔

تھوڑا سا آگے چل کر ہم نے دیکھا کہ ہاتھی نے اچانک اپنا رخ بدلا ہے اور وہ اب دریائے کاویری کی طرف جا رہا ہے۔

ہمیں خطرہ ہوا کہ کہیں ہاتھی دریائے کاویری عبور کر کے ہم سے بچ نکلنے میں کامیاب نہ ہو جائے۔ ہر ممکن تیزی سے آگے بڑھتے ہوئے آگے ہم نے ایک جگہ ہاتھی کی بالکل تازہ اور گرم لید دیکھی۔ پیشاب ابھی بھی زمین میں پوری طرح جذب نہ ہوا تھا۔ آخر کار ہم ہاتھی کے بہت نزدیک پہنچ گئے تھے۔

اب ہم نے باقاعدہ دوڑ شروع کر دی کہ ہم ہاتھی سے قبل یا پھر اس کے ساتھ ہی دریائے کاویری تک پہنچیں۔ یہاں ٹوٹے ہوئے درختوں کی شاخوں سے پانی رس رہا تھا جو ظاہر کرتا تھا کہ ہاتھی ابھی ابھی یہاں سے گزرا ہے۔

آخر کار ایک ڈھلوان عبور کرتے ہی پانی بہنے کی آواز آئی۔ موڑ مڑتے ہی دریائے کاویری ہمارے سامنے تھا۔ خاموشی اور احتیاط سے آگے بڑھتے ہوئے ہم نرم ریت تک پہنچے۔ یہاں ہمارے اندازے کے برعکس ہاتھی نے دریا عبور کرنے کی بجائے دریا کے ساتھ ساتھ ہی چلتے رہنے کا فیصلہ کیا تھا۔

150گز مزید دور جا کر ہمیں ایک چھوٹا سا گڑھا دکھائی دیا جس میں پانی جمع تھا اور ہاتھی کے کلیلیں کرنے کی آوازیں بھی آ رہی تھیں۔ ہاتھی نہا رہا تھا۔

خوش قسمتی سے ہوا ہاتھی سے ہماری طرف چل رہی تھی۔ ہم احتیاط سے اور جھک کر بڑھے تو ہاتھی دکھائی دیا۔ اس کا منہ دوسری طرف تھا۔

یہاں اس زاویے سے یہ کہنا بالکل نا ممکن تھا کہ یہ ہاتھی وہی پاگل ہاتھی ہی ہے۔ ہم نے انتظار کی ٹھانی کہ کب ہاتھی اپنا رخ بدلتا ہے۔

5 منٹ مزید نہانے کے بعد اچانک ہاتھی اٹھا اور گڑھے سے باہر نکلا۔ اس وقت تک بھی اس کا رخ مخالف سمت تھا اور ہم اس کے دانت نہ دیکھ سکے تھے۔

اب ہم نے بعجلت فیصلہ کرنا تھا کہ کیا کریں۔ اگر ہاتھی ایک بار دریا کے کنارے پہنچ جاتا تو پھر گم ہو جاتا۔ میں اچانک دو بار چٹکی بجائی۔ یہ آواز ہاتھی کے حساس کانوں تک فوراً پہنچی اور وہ رک گیا۔ پھر وہ مڑا۔ یہ وہی پاگل ہاتھی تھا جس کا صرف ایک بیرونی دانت تھا۔ اس کا یہ دانت دائیاں تھا، بائیں جانب والا دانت غآئب تھا۔ اس کی سونڈ وحشیانہ انداز میں اٹھی ہوئی تھی۔ اس نے سیکنڈ سے بھی کم وقت میں ہمیں تلاش کر لیا۔ سونڈ لہراتے ہوئے وہ ہماری جانب بڑھا۔

اسی لمحے میری اعشاریہ 405 بور کی رائفل بول پڑی۔ یہ گولی اس کی سونڈ سے ہوتی ہوئی اس کے حلق سے گذری اور اس کی شہ رگ میں سوراخ کر گئی۔ ہاتھی وہیں رک گیا۔ اس کے حلق سے خون فوارے کی مانند نکل رہا تھا۔ اس نے مڑنے کی کوشش کی۔ اتنے میں میں نے مزید دو گولیاں اس کے ماتھے اور کان کے پیچھے اتار دیں۔ یہ دونوں گولیاں مہلک ثآبت ہوئیں اور ہاتھی گر گیا۔

اس کے سارے بدن پر کپکپی طاری تھی اور گڑھے کا پانی سرخ ہو چلا تھا۔ چند منٹ ہی میں اس کی روح نکل گئی۔

تعارف

شیر کا آدم خوری کی طرف مائل ہونا غیر معمولی امر ہے۔ عام حالات میں ہندوستانی جنگلوں کا یہ بادشاہ نہایت شریف اور قابل احترام جانور ہے۔ شیر ہمیشہ شکار برائے خوراک کرتا ہے۔ حیوانی جبلت کی تسکین کے لئے شکار کرنا شیر کا خاصہ نہیں۔ اس کا شکار عموماً جنگلی چرندے ہوتے ہیں۔ کبھی کبھار یہ سرکاری چراہ گاہوں کے مویشیوں پر بھی ہاتھ صاف کر لیتا ہے۔

بعض اوقات شیرنی اپنے نوعمر بچے کو شکار کے گر سکھاتے ہوئے ایک وقت میں تین سے چار جانور بھی مار سکتی ہے تاکہ بچے کو شکار کے گر اچھی طرح سمجھائے جا سکیں۔ شیر کے شکار کا طریقہ عموماً جانور کی گردن توڑ کر اسے ہلاک کرنا ہوتا ہے۔ شیرنی عام طور پر دو بچے ہی پیدا کرتی ہے لیکن چار تک بچے ہونا عام بات ہے۔ کہا جاتا ہے کہ نر شیر اگر زچگی کے وقت قریب موجود ہو تو آدھے بچے بالخصوص نر بچے وہ خود کھا جاتا ہے۔

شیر کے شکار کا طریقہ، جیسا کہ میں نے اوپر بتایا، جانور کی گردن توڑ کر اسے مارنا ہوتا ہے۔ چیتے اور تیندوے عموماً جانور کا گلہ گھونٹ کر اسے مارتے ہیں۔ شیر شکار کے لئے جانور کے ساتھ بھاگتے ہوئے اس کی پشت پر پنجہ رکھ کر اسے دباتا ہے اور ساتھ ہی اس کی گردن پکڑ کر نیچے کی طرف مروڑ دیتا ہے۔ اس طرح بھاگتے جانور کا اپنا وزن ہی اسے ہلاک کر دینے کے لئے کافی ہو جاتا ہے۔ اس طرح شیر کو زور لگا کر گردن توڑنے کی محنت سے چھٹکارا مل جاتا ہے۔ ویسے میں نے خود اپنی آنکھوں سے شیر کو گردن مروڑ کر بھی جانور کو ہلاک کرتے دیکھا ہے۔ شکار کے دوران شیر کا منہ اتنا کھل جاتا ہے کہ یہ بتانا مشکل ہے کہ وہ جانور کو گردن کے اوپر سے پکڑتا ہے کہ نیچے سے۔ دانتوں کے نشانات بھی اس بات پر روشنی نہیں ڈالتے۔

اسی طرح چیتے اور تیندوے میں ایک دلچسپ فرق ہوتا ہے۔ تیندوے اور چیتے ایک ہی نسل کے جانور ہیں۔ تیندوا نسبتاً بڑی جسامت کا ہوتا ہے اور اکثر جانور کی گردن توڑ کر اسے مارتا ہے جبکہ چیتا گلا گھونٹ کر۔ اس کے علاوہ چیتا چھوٹی جسامت کے جانور بھی مارتا ہے جن میں گھریلو مرغیاں، آوارہ کتے اور چھوٹے موٹے جانور شامل ہیں۔ تیندوا اور چیتا شیر کی نسبت بہت کم طاقتور ہوتے ہیں لیکن مکاری میں لاثانی۔ تیندوے برصغیر، ایشیا اور یورپ میں پائے جاتے ہیں۔

آدم خور چاہے شیر ہو یا تیندوا یا پھر چیتا، ان کی آدم خوری کی سب سے بڑی وجہ انسان ہی ہوتا ہے۔ بندوق یا رائفل سے کئے گئے اوچھے وار کے بعد جب یہ اپنے قدرتی شکار کو مارنے میں ناکام رہنے پر وہ انسان پر حملہ کرتا ہے۔ انسان جب غیر مسلح ہو تو اپنے دفاع سے بالکل معذور ہوتا ہے۔ بعض اوقات آدم خوری کی وجہ سیہہ کے شکار کے دوران لگنے والے کانٹے بھی ہوتے ہیں۔ اسی طرح آدم خور شیرنی اپنے بچوں کو بھی یہ عادت منتقل کر سکتی ہے۔ ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ کسی وبائی بیماری سے مرنے والے افراد کی لاشیں جلائے یا دفن کئے بغیر جنگل میں پھینک دی جاتی ہیں جنہیں کھا کر یہ جانور آدم خوری کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔ بعض اوقات آدم خوری کی وجہ بالکل بھی معلوم نہیں ہو پاتی۔

آدم خور بن جانے کے بعد چاہے وہ چیتا ہو یا تیندوا یا پھر شیر، یہ اپنے ارد گرد کے علاقے کے لئے ایک دہشت بن جاتے ہیں۔ عموماً غریب دیہاتی اپنے دفاع سے معذور ہوتے ہیں اور ان کے پاس دو ہی راستے ہوتے ہیں، یا تو ایک ایک کر کے آدم خور کا شکار ہوتے جائیں اور یا پھر اس علاقے کو چھوڑ کر دور چلے جائیں۔ شیر عموماً ایک ہی علاقے میں محدود رہتا ہے۔ لیکن جوں جوں ہلاکتیں بڑھتی جاتی ہیں، توہم پرستی لوگوں کو اتنا کمزور کر دیتی ہے کہ وہ کچھ کرنے کے قابل نہیں رہ جاتے۔ ایسی صورتحال میں آدم خور کے خلاف حکمت عملی تیار کرنا بالکل ناممکن ہو جاتا ہے۔ سڑکیں ویران ہو جاتی ہیں، دیہاتی آمد و رفت بالکل رک جاتی ہے، جنگلوں کی کٹائی رک جاتی ہے، مویشیوں کو چرانے کے لئے نہیں بھیجا جاتا، کھیت اجڑ جاتے ہیں اور بعض اوقات پورے کا پورا گاؤں دوسری جگہ منتقل ہو جاتا ہے۔ آدم خور کے شکار میں یہ بھی مشکل ہوتی ہے کہ توہم پرست لوگ سمجھتے ہیں کہ اگر وہ اس کے بارے کچھ بھی کہیں گے تو آدم خور کو علم ہو جائے گا کہ کس نے اس کے خلاف بات کی ہے اور پھر سب سے پہلے وہ انہی کا ٹینٹوا دبائے گا۔

اسی طرح ملاپ کے دنوں ہاتھی بھی پاگل ہو جاتے ہیں۔ یہ عرصہ نوے دن پر محیط ہوتا ہے اور اس دوران ہاتھی نہایت خطرناک ہو جاتے ہیں۔ ہاتھی کے کان کے پیچھے والے سوراخ سے بدبو دار اور چکنے مواد کا رسنا اس کی علامت ہوتی ہے۔ اس ملاپ کے زمانے کے بعد یہ ہاتھی عموماً اپنی اصل حالت پر لوٹ آتے ہیں اور خطرہ نہیں رہتے۔ بعض اوقات نوجوان ہاتھی ماداؤں کے شوق میں بڑے نروں سے ٹکرا جاتے ہیں۔ نتیجتاً ان کی بری طرح پٹائی ہوتی ہے اور پھر وہ گروہ سے نکال دیئے جاتے ہیں۔ اس طرح جب وہ گروہ سے الگ ہوتے ہیں تو پھر جو چیز سامنے پڑے اسے توڑ پھوڑ کر اپنا غصہ نکالتے ہیں۔ انسان حسب معمول ایک آسان شکار ہوتا ہے۔

یہ بات واضح رہے کہ ہندوستان کے جنگلات آدم خوروں اور پاگل ہاتھیوں سے بھرے نہیں ہوتے۔ یہاں پگڈنڈی پر جنگل کے وسط میں چلنا اتنا ہی محفوظ ہوتا ہے جتنا کہ کسی بڑے شہر کی سڑک پر چلنا۔

اس کے علاوہ یہاں کی خوبصورتی، حشرات، جانور، پرندے، ان جنگلوں کا جوبن، طلوع اور غروب آفتاب کا وقت اور چاندی جیسی چاندنی راتیں جب چاند بانس کے جھنڈ پر چمکتا ہے، انسان کی تنہائی، اس کا اپنے خالق سے قرب، یہ تمام ایسی چیزیں ہیں جو جنگل کے علاوہ شاید ہی کہیں مل سکیں۔

مجھے توقع ہے کہ یہ کتاب پڑھتے وقت جب آپ کو جغرافیائی اور قدرتی ماحول کی وضاحت پر ایک بڑا حصہ دکھائی دے گا یا جب میں جانوروں اور پرندوں کی آوازوں کی نقالی لکھنے کی کوشش کروں گا تو یہ محض ان سنہری یادوں کو تازہ کرنے کی کوشش ہوگی جن سے ہو سکتا ہے کہ بہت سارے لوگ دور ہو چکے ہوں۔ وہ وقت قریب ہے جب میں خود ان سے بچھڑ جاؤں گا۔

آخر میں میں اپنے والد کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا جنہوں نے مجھے 7 سال کی عمر میں بندوق چلانا سکھایا۔ وہ جنگل سے اتنا زیادہ شغف نہیں رکھتے تھے۔ بطخوں، تیتر اور چھوٹے جانور کا شکار ان کی خوشی کے لئے کافی تھے۔ اس کے علاوہ بیرا کا شکریہ ادا کرنا بھی لازمی ہے جو کہ ایک مقامی پجاری ہے اور دریائے چنار کے کنارے ایک کھوہ میں آج سے 25 سال قبل اس سے میری پہلی ملاقات ہوئی تھی۔ اس نے مجھے جنگل کی الف بے سکھائی تھی۔ جنگل سے میری محبت کا ایک بڑا سبب بیرا ہی ہے۔ اس کے علاوہ میرے ساتھی مقامی شکاری رانگا کا بھی میں بہت مشکور ہوں جس نے بے شمار مہمات میں میرا ساتھ دیا۔ رانگا نے ہر خطرے میں ثابت قدمی دکھائی اور مجھے اس کی دوستی پر ہمیشہ فخر رہے گا۔ سووری جو کہ رانگا کا نائب اور رانگا جتنا ہی عمدہ شکاری تھا، میرے پرانے دوست اور شکار ڈک برڈ اور پیٹ واٹسن کا شکریہ ادا کرنا بھی بے موقع نہ ہوگا جنہوں میرے علم میں سب سے زیادہ شیر مارے ہیں، میرے شروع کے دن میں میرے رہنما تھے۔

Sunday, October 21, 2007

سیگور کا آدم خور

سیگور کا آدم خور

وادئ سیگور شمال مشرقی پہاڑی سلسلے کے دامن میں واقع ہے۔ یہ پہاڑ نیلگری کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ ان پہاڑی سلسلوں کی بلندی پر "اوکتامند" کا مشہور صحت افزا مقام واقع ہے۔ اس سلسلے کی اوسط اونچائی 7500 فٹ سے بلند ہے۔ پورے ہندوستان کے طول و عرض کے لوگوں کے لئے یہ پرکشش تفریحی مقام ہے اور اسے بلا شبہ پہاڑی صحت افزا مقامات کی ملکہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ "اوکتا مند" کی اپنی بے پناہ خوبصورتی ہے۔ اس کے علاوہ یہاں کی آب و ہوا ہر قسم کے برطانوی پھولوں کی بے مثال افزائش گاہ ہے۔ یہاں پھیلی ہوئی سفیدے، فر اور پائن کے درختوں کی خوشبوئیں مست کر دیتی ہیں۔ اس کے علاوہ نسبتاً خنک موسم میدانی علاقوں سے آنے والے سیاحوں کی اس طرح سواگت کرتا ہے کہ انہیں یہ زندگی بھر یاد رہتا ہے۔

"اوکتا مند" سے نکلنے والی بارہ میل لمبی سڑک جو کہ "گھاٹ روڈ" کے نام سے جانی جاتی ہے، ہموار ڈھلوانوں سے گزرتی ہوئی اس علاقے کو جاتی ہے جو کبھی لومڑیوں کے شکار کے لئے مشہور تھا۔ بے تحاشہ شکار کے باعث لومڑیوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے اور اس کی جگہ مقامی گیدڑوں نے لے لی ہے۔ اس مقام کے بعد اچانک استوائی جنگلات شروع ہو جاتے ہیں۔ یہاں سڑک اتنی ڈھلوان ہو جاتی ہے کہ صرف طاقتور انجن والی گاڑیاں ہی اسے عبور کر سکتی ہیں۔ سیگور پہنچ کر سڑک دو حصوں میں تقسیم ہو جاتی ہے۔۔ ایک حصہ شمال مغرب کی طرف گھنے جنگلوں سے ہوتا ہوا "ماہن وان ہالا" کی وادی سے گزرتا ہے اور "سینی گنڈی" سے ہوتا ہوا ٹرنک روڈ سے جا ملتا ہے۔ یہ ٹرنک روڈ بنگلور اور میسور کو "اوکتا مند" سے ملاتی ہے اور یہاں ٹیپو کاؤو کے مقام پر ایک چوکی بھی قائم ہے۔ دوسرا حصہ مشرق کی طرف جاتا ہے اور گھنے جنگلوں، نیلے پہاڑوں کے دامن سے ہوتا ہوا "انیکٹی" کے فارسٹ بنگلے کی طرف جاتا ہے جو یہاں سے کل نو میل کی مسافت پر ہے۔ دو دریا اس علاقے کو پانی فراہم کرتے ہیں۔ ان کے نام دریائے سیگور اور دریائے انیکتی ہیں۔ پندرہ میل آگے جا کر یہ مویار کے دریا سے جا ملتے ہیں۔ مویار دریا شمال کی جانب ریاست میسور کی سرحد بناتا ہے۔

متذکرہ بالا تمام جنگلات بہت گھنے اور سدا بہار جنگلات ہیں۔ ان میں میسور، مالاہار اور نیلگری کے گیم ریزرو موجود ہیں اور ہاتھی، جنگلی بھینسے، شیر، چیتے، سانبھر، چیتل اور دیگر دوسرے جانوروں کی قدرتی آماج گاہ ہیں۔

فارسٹ بنگلہ ایسی جگہ بنایا گیا ہے جہاں دریائے انیکٹی پورے زور و شور سے گزرتا ہے۔ گرمیوں میں یہ مقام نہایت مضر صحت ہوتا ہے اور یہاں ملیریا پھیلانے والے مچھروں کی بھرمار ہوتی ہے۔ یہاں بہت بار "بلیک واٹر" نامی وبا بھی پھیل چکی ہے۔ سردیوں میں یہ جگہ جنت کا نمونہ بن جاتی ہے۔ صبح کو چمکیلی دھوپ پھیلی ہوتی ہے اور گھومنے پھرنے کے لئے بہت عمدہ وقت ہوتا ہے۔ سہ پہر تک موسم کافی سرد ہو جاتا ہے اور رات کو پہاڑوں سے آنے والی یخ بستہ ہوائیں برداشت سے باہر ہو جاتی ہیں۔ رات اتنی سرد ہو جاتی ہے کہ آدمی سے بنگلے سے باہر نکلنا نہیں ہو پاتا۔ بنگلے کے ہر کمرے میں آتش دان موجود ہیں۔ رات کو ان کے گرد محفل جمتی ہے اور جن بھوتوں کی کہانیاں رونگٹے کھڑے کر دیتی ہیں۔ بنگلے کے صحن میں رات کو ہاتھی، چیتے اور شیر دھاڑتے پھرتے ہیں جن کو سن کر بنگلے میں کمبل میں دبکا ہوا بندہ اچھی طرح محسوس کرتا ہے کہ وہ اس وقت بھی جنگل کے درمیان میں ہے۔

انہی جنگلات میں میں کئی بار مہمات کے سلسلے میں وقت گزار چکا ہوں اور یہ میرے پسندیدہ ترین جنگلات ہیں۔ ان مہمات کی یاد آج بھی میرے جسم میں خون کی گردش تیز کر دیتی ہے۔

مثال کے طور پر جنگلی کتوں کو ہی لے لیجئے۔ یہ غول در غول پورے ہندوستان میں پائے جاتے ہیں۔ ان کی تعداد تین سے تیس تک ہو سکتی ہے۔ یہ غول بیابانی ہر قسم کے جانور کے لئے خطرہ ہیں۔ ہرن اور سانبھر جیسے جانور کو زندہ ہی چیر پھاڑ کر کھانا شروع کر دیتے ہیں۔ انہی جنگلوں میں کتنی بار مجھے یہ کتے سانبھر کا پیچھا کرتے دکھائی دیئے ہیں۔ ان کے شکار کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ غول کے اکثر کتے نیم دائرے کی شکل میں پھیل جاتے ہیں۔ چندکتے کسی جانور کو ہانک کر ادھر لاتے ہیں اور پھر یہ سب باری باری اس جانور کو بھگاتے چلے جاتے ہیں۔ جہاں جانور کی ہمت نے جواب دیا، سب مل کر پل پڑے اور کچھ دیر بعد اس جانور کا نام و نشان تک نہیں بچپتا۔ میں نے ایک بار ایک سانبھر کو جان بچانے کے لئے تالاب میں کودتے دیکھا۔ کتوں کے تالاب کے دوسرے سرے تک پہنچنے سے قبل سانبھر تیر کر نکل گیا۔ سانبھر بہت سخت جان جانور ہے اور عموماً بیچارہ زندہ ہی برابر کر لیا جاتا ہے۔

ایک شام 5 بجے جب میں بنگلے سے کوئی میل بھر ہی دور ہوں گا تو میں نے جنگلی پھولوں کی ایک نادر قسم دیکھی۔ ابھی اس کے معائینے میں مصروف تھا ہی کہ اچانک کچھ عجیب طرح کی آوازیں سنائی دیں۔ میں انہیں شناخت نہ کر پایا۔ مجھے کافی الجھن ہوئی کیونکہ میری زندگی ہی جنگل میں گزری تھی اور میں پھر بھی ان آوازوں کو پہچاننے میں ناکام رہا تھا۔ اچانک مجھے یاد آیا کہ جنگلی کتے اپنے شکار کا پیچھا کرتے ہوئے کئی عجیب طرح کی آوازیں نکال سکتے ہیں۔ رائفل چھتیاتے ہوئے میں کسی پناہ کی تلاش میں بھاگا۔ ابھی فرلانگ بھر ہی بھاگ پایا ہوں گا کہ ایک موڑ سے شیرنی نمودار ہوتے دکھائی دی۔ اس کے پیچھے نصف درجن جنگلی کتے تھے۔ میں نے خود کو ایک بڑے درخت کے تنے کے پیچھے چھپایا ہوا تھا۔

دیکھتے ہی دیکھتے کتوں نے شیرنی کو گھیرے میں لیا جو بار بار اب غصے سے دھاڑ رہی تھی۔ وقتاً فوقتاً ایک کتا پیچھے سے شیرنی کو نوچنے کی کوشش کرتا اور شیرنی جونہی اس کی طرف مڑتی تو پیچھے سے مزید کتے اس پر حملہ کر دیتے۔ مجھے اچھی طرح اندازہ ہو چلا تھا کہ شیرنی اب زیادہ دیر نہیں زندہ رہ پائے گی۔

اس دوران کتے بہت زیادہ شور مچا رہے تھے۔ اچانک عقب سے مزید کتوں کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ بظاہر ایسا لگتا تھا کہ یہ کتے جو شیرنی کو گھیرے ہوئے ہیں محض ہراول دستہ ہی ہیں۔ اصل جھنڈ تو پیچھے ہے اور اپنے ہراول دستے کی ہمت بڑھانے کے لئے شور کرتا آ رہا ہے۔ شیرنی نے بھی یہ شور سنا اور ایک نئی ہمت کے ساتھ کتوں پر حملہ کیا۔ دو کتے اس کی زد میں آ گئے۔ ایک تو خیر جھکائی دے کر بچ گیا، دوسرے کی کمر پر شیرنی کا پنجہ پڑا اور وہ سوکھی ٹہنی کی طرح ٹوٹ گئی۔ یہ دیکھ کر کتے پیچھے ہٹ گئے۔ شیرنی نے فوراً چھلانگ لگائی اور دوڑ پڑی۔ بقیہ کتوں نے بھی اس کا پیچھا شروع کر دیا۔ بقیہ جھنڈ بھی پہنچ گیا۔ انہوں نے یا شیرنی نے میری موجودگی کا کوئی نوٹس نہیں لیا اور میرے پاس سے ہی نکلتے چلے گئے۔ کتوں کی ہمت اور بہادری کی وجہ سے میری دلچسپی بہت بڑھ گئی تھی اور میں اتنا محو ہو گیا تھا کہ شیرنی پر یا کتوں پر گولی چلانے کا خیال تک نہ آیا۔

اگلی صبح میں نے اپنے کھوجیوں کو اس قصے کی بقیہ تفصیلات معلوم کرنے بھیجا۔ دوپہر تک وہ لوٹ آئے۔ ان کے پاس شیرنی کی کھال کے کچھ ٹکڑے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ کتوں نے شیرنی کو مزید پانچ میل بھگایا تھا۔ اس کے بعد آخری لڑائی میں پانچ مزید کتے مارے گئے اور بقیہ کتوں نے شیرنی کی دھجیاں اڑا دی تھیں۔ اس کے علاوہ ان کے مردہ ساتھیوں کی لاشوں کا بڑا حصہ بھی ان کے پیٹ کا ایندھن بنا۔

اس علاقے میں تین مختلف مقامی قبائل آباد ہیں۔ ان میں سے کارومبا قبائل بہترین شکاری اور اتنے ہی بہترین کھوجی ہوتے ہیں۔ عموماً ان کی پیدائش سے ان کی موت تک انہی جنگلات میں ہوتی ہے اور شاذ و نادر ہی ان میں سے کسی نے جنگل سے باہر کی دنیا دیکھی ہوتی ہے۔

اب چلتے ہیں اصل آدم خور کی طرف۔ اطلاعات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ شیر ضلع مالابار اور ویناد کے جنگلوں سے آیا تھا۔ اس علاقے میں ہاتھی اور جنگلی بھینسے بکثرت موجود ہیں۔ یہاں کے ہاتھی بھی اکثر و بیشتر پاگل ہوتے رہتے ہیں۔ اصولاً اس طرح کے جنگلات میں شیر نہیں پائے جاتے۔ خاموش وادی میں کئی انسانی شکار ہوئے اور تب سے اسے مکمل طور پر بند کر دیا تھا۔ کوئی شخص یہ نہیں جانتا تھا کہ شیر نے آدم خوری کیوں شروع کی۔

گرمیوں کے وسط کا زمانہ تھا اور شیر کافی فعال ہو چکا تھا۔ ہر ہفتے انیکٹی اور سیگور کےد رمیان شکار کرتا تھا اور میں بھی انہی دنوں ادھر پہنچا۔ آدم خور کا آخری شکار ایک مقامی چرواہا تھا جو اپنی نیم پالتو نیم جنگلی بھینسوں کو چرا رہا تھا۔ آدم خور نے اس پر باقاعدہ گھات لگا کر حملہ کیا تھا جبکہ اس نے اپنے اردگرد موجود بھینسوں کو دیکھا تک نہیں۔ اس نے اپنے شکار کو ختم کیا اور اسے اٹھا ہی رہا تھا کہ بھینسوں کو اس کی موجودگی کا علم ہوا۔

یہ بھینسیں نیم وحشی ہیں اور کسی بھی اجنبی کے لئے خاصی خطرناک ثابت ہو سکتی ہیں۔ خصوصاً اگر اجنبی نے یورپی طرز کے کپڑے پہنے ہوئے ہوں۔ اس طرح کے افراد پر وہ نظر پڑتے ہی حملہ کر دیتی ہیں۔ شیر کو دیکھتے ہی انہوں نے جمع ہو کر شیر پر حملہ کر دیا جس کے بعد شیر اپنے شکار کو چھوڑ کر فرار ہو گیا۔

اس رات نہ تو چرواہا اور نہ ہی بھینیسں واپس آئیں۔ اگلی صبح ایک بڑی جماعت ان کی تلاش میں بھیجی گئی۔ مردہ چرواہے کو تلاش کرنے میں انہیں کوئی مشکل نہ پیش آئی۔ اس کی بھینیسںں اس کی حفاظت کی غرض سے ابھی تک اس کے گرد جمع تھیں۔شاید اسی وجہ سے شیر کو واپس آ کر چرواہے کو لے جانے کا موقع نہ مل سکا۔

ہفتے بھر قبل شکار ہونے والی ایک عورت تھی جو سیگور میں رہتی تھی۔ وہ بیچاری دریائے سیگور سے پانی بھرنے گئی تھی کہ شیر اسے پکڑ کر لے جانے میں کامیاب ہو گیا۔ اس وقوعے کا ثبوت ٹوٹا مٹکا، شیر کے پنجوں کے نشانات، خون کی بوندیں، پھٹی ہوئی ساڑھی اور کچھ انسانی بال ہی باقی تھے۔

میں نے اس جگہ کے ارد گرد کا چکر لگایا اور شیر کے پنجوں کے نشانات کا بڑی احتیاط سے جائزہ لیا۔ ان کی پیمائش سے پتہ چلا کہ شیر نسبتاً چھوٹی جسامت کا حامل اور نابالغ ہے۔

اطلاعات یہ تھیں کہ شیر کو سیگور اور انیکٹی کے درمیان بکثرت دیکھا گیا ہے اور اس کے قدموں کے نشانات بھی سیگور اور انیکٹی کے گردو نواح اور راستے میں بھی بکثرت پائے جاتے ہیں۔ حفظ ماتقدم کے طور پر میں نے راستے کے اطراف میں مختلف جگہوں پر بیٹھنے کا منصوبہ بنایا۔ تفصیلات میں جائے بغیر اتنا بتا دیتا ہوں کہ اس پورے ہفتے میں ایک بار بھی شیر نہ دکھائی دیا۔

میں نے اب 20 افراد پر مشتمل ایک کھوجی جماعت بنائی اور ان کے ساتھ جنگل کے اس حصے کی طرف چل پڑا جہاں شیر کی موجودگی کا امکان ہو سکتا تھا۔ یہاں پہنچ کر میں نے پانچ پانچ افراد کے چار گروہ بنائے تاکہ ان پر آدم خور حملہ نہ کر سکے۔ دوپہر تک ہم نے تلاش جاری رکھی۔ اس کے بعد ایک بندے نے ایک نالے میں انسانی لاش کی موجودگی کی اطلاع دی۔ میں فوراً اس مقام پر پہنچا اور دیکھا کہ اس بندے کی موت شیر کے گلا دبوچنے سے ہوئی تھی۔ اس کے ساتھ ہی مٹی کے تیل کا ڈبہ موجود تھا جس میں اس نے شہد جمع کی ہوئی تھی جو اب ہر طرف بکھر چکی تھی اور اس پر کالی چیونٹیوں کے جتھے حملہ آور تھے۔

مجھے فوراً خیال گذرا کہ شیر نے ہلاک کر کے اسے کھایا کیوں نہیں۔ لاش بالکل ان چھوئی حالت میں تھی۔ جگہ بھی اتنی چھپی ہوئی تھی کہ شیر با آسانی پیٹ بھرتا اور کسی کو علم تک نہ ہو سکتا۔ ہم نے پنجوں کی تلاش شروع کی تو پتہ چلا کہ وہ کسی مادہ ریچھنی کا شکار ہوا ہے جو کہ اپنے بچے کے ہمراہ تھی۔ ریچھنی کے پیروں کے نشانات بالکل انسانی قدموں سے مشابہ ہوتے ہیں۔

ریچھ کے بارے کچھ بھی یقین سے کہنا مشکل ہے۔ ان کی بصارت بہت کمزور ہوتی ہے۔ ہمارا اندازہ یہ تھا کہ یہ بچیارہ قبائلی شہد کی تلاش میں ریچھی تک پہنچا ہوگا اور یا تو اس وقت ریچھنی سو رہی ہوگی یا پھر نالہ عبور کر رہی ہوگی کہ ان کی مڈبھیڑ ہو گئی۔ جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا ہے کہ ریچھ کی نظر بہت کمزور ہوتی ہے اور یہ انسانی موجودگی سے تب آگاہ ہوتے ہیں جب وہ بہت قریب پہنچ جائیں۔ پھر حیرت زدہ ریچھنی نے اس پر حملہ کر دیا ہوگا تاک اپنے بچے کو بچا سکے۔ اس لئے اس نے اس بیچارے کو گلے سے پکڑا ہوگا اور شہ رگ کٹ جانے سے وہ وہیں ہلاک ہو گیا اور ریچھنی بچے کے ہمراہ فرار ہوگئی۔

میری اپنی خواہش یہ تھی کہ میں خوامخواہ اس ریچھنی کا پیچھا نہ کروں کیونکہ اس نے محض اپنے بچے کو بچانے کے لئے حملہ کیا تھا۔ میں نے انیکٹی اپنے بنگلے کی طرف رخ کیا ہی تھا کہ چار مزید آدمی آن پہنچے۔ انہوں نے مجھ سے مطالبہ کیا کہ میں اس ریچھنی کو ہلاک کروں کیونکہ وہ بھی شہد جمع کرتے ہیں اور کل کو یہ واقعہ ان کو بھی پیش آ سکتا ہے۔ ان کو خوش کرنے کے خیال سے میں نے اپنے ہمراہیوں کو واپس جانے کی ہدایت کر دی اور خود ان نئے آنے والے افراد کے ساتھ چل پْڑا۔ ریچھنی کے قدموں کے نشانات نالے سے ہوتے ہوئے ایک ندی میں جا پہنچے جہاں ریچھنی اور اس کا بچہ کچھ دیر تک رہے اور پھر واپس جنگل کی طرف پلٹ پڑے۔ اس جگہ جنگل میں پہاڑی سلسلہ شروع ہو جاتا تھا۔ یہاں بے شمار غار موجود تھے اور ان میں لگے ہوئے پہاڑی شہد کی مکھیوں کے لاتعداد چھتے۔ ان چھتوں کی لمبائی ایک گز سے زیادہ، اونچائی پانچ فٹ سے زیادہ اور موٹائی ایک فٹ تک ہو سکتی ہے۔ اب ہم جس زمین پر تھے وہ بالکل سخت اور پتھریلی تھی۔ میری ناتجربہ کار نگاہوں سے ریچھنی کے تمام تر نشانات اوجھل تھے۔ لیکن میرے ہمراہی اس کام کے ماہر تھے۔ دو گھنٹے تک وہ ادھر سے ادھر اور پہاڑی کے اوپر نیچے لئے پھرتے رہے۔ اپنی جگہ سے ہٹا ہوا پتھر، ہلا ہوا پتہ، رگڑ یا چھلینے کے معمولی سے نشانات یا ہلکی سی کھدائ، کوئی بھی نشانی میرے ہمراہیوں سے چھپی نہ تھی۔ بالآخر ہم ایک غار کے دہانے تک جا پہنچے جو کہ ایک بڑی چٹان کے پیچھے پوشیدہ تھی اور اس کے منہ پر لٹکے ہوئے 23 چھتے میں نے خود گنے۔ میرے ہمراہیوں کا کہنا تھا کہ یہ غار ہی اس ریچھنی کی رہائش گاہ ہے۔

غار کے دہانے سے دس گز کے فاصلے پر ایک طرف ہٹ کر میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ وہ غار میں پتھر پھینکیں۔ یہ سلسلہ کوئی 20 منٹ تک جاری رہا۔ اس کے بعد ان لوگوں نے گھاس جمع کر کے مشعل سی بنائی اور اسے آگ لگا کر غار میں پھینک دیا۔ لیکن کچھ بھی نہ تبدیل ہوا۔ آخر انہوں نے 5 مزید مشعلیں بنائیں، ایک کو جلا کر ایک شخص میرے آگے اور تین بقیہ چار اضافی مشعلیں اٹھائے میرے پیچھے تھے۔

غار متوقع طور پر خالی ملی۔ ہمارا اندازہ تھا کہ ریچھنی یا تو ہماری آمد سے قبل ہی یا پھر ہماری آمد کے شور کے باعث فرار ہو گئی۔ میں نے اطمینان کا سانس لیا کہ میری ریچھنی سے کوئی دشمنی نہ تھی اور اسے مار کر مجھے افسوس ہوتا کہ اس کا بچہ لا وارث ہو جاتا۔

ہم نے تیسری مشعل جلائی اور واپس ہونے ہی والے تھے کہ ایک ساتھی کو اچانک ایک عجیب چیز دکھائی دے گئی جس کے بارے میں میں عرصہ سے سنتا چلا آ رہا تھا لیکن کبھی دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا۔

اس کو جو چیز ملی تھی تو کونے میں پڑی ایک روٹی نما چیز تھی۔ اسے مقامی لوگ ریچھ کی روٹی کہتے تھے۔ یہ دس انچ لمبی اور ایک انچ موٹی گول شکل میں تھی۔ مٹیالے سے رنگ کی اور لیس دار تھی۔ ریچھنیوں کے بارے مشہور ہے کہ وہ "جاک" کے درخت کا پھل اور شہد کے چھتے کو کھا کر اگل دیتی ہیں اور پھر اسے گول شکل دے کر اس کو سخت ہونے تک چھوڑ دیتی ہے۔ پھر اسے اس کے بچے کھاتے ہیں۔

ریچھ کے لمبے بالوں کی وجہ سے اس پر شہد کی مکھیوں کے ڈنگ اثر نہیں کرتے۔ حالانکہ اگر یہی ڈنگ انسان کو لگیں تو وہ مہلک بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔ ریچھنی کے غار میں ایک سے لے کر درجن بھر تک اس طرح کی روٹیاں ہو سکتی ہیں۔ ریچھ پھلوں کی تلاش میں بہت تیزی سے درخت پر چڑھ سکتا ہے۔ خیر ہمیں اس غار سے صرف ایک ہی روٹی ملی۔ میرے لئے یہ حیرت انگیز چیز تھی۔ میری دلچسپی کو دیکھتے ہوئے میرے ساتھیوں نے مجھے پیش کش کی کہ میں اس روٹی کو کھا لوں۔ میں نے نرمی سے انکار کر دیا۔ انہوں نے میرے سامنے اس روٹی کے چار حصے کئے اور فوراً ہی کھا گئے۔

ہم لوگ غار کے دہانے پر پہنچے ہی تھے کہ شاید مشعل کی روشنی، دھوئیں یا پھر ہماری باتوں سے گھبرا کر شہد کی مکھیوں نے ہم پر حملہ کر دیا۔ ہم نے باہر کی طرف دوڑ لگائی۔ مکھیاں ہمارے پیچھے تھیں۔ میرے ہاتھ میں رائفل تھی اور میں تیز نہیں بھاگ سکتا تھا۔ خوش قسمتی سے میرے جسم پر پورے کپڑے تھے۔ اسی دوران میری گردن اور ہاتھوں پر کوئی 20 عدد ڈنگ لگ چکے تھے۔ میرے ساتھیوں کے جسموں پر کم از کم 40 40 ڈنگ تھے۔ انہوں نے صرف لنگوٹیاں پہنی ہوئی تھیں۔

رات کو ساڑھے آٹھ بجے میں پھر باہر نکلا۔ میرے ہمراہ ایک مقامی بندہ بھی ساتھ تھا۔ وہ کار کی اگلی سیٹ پر بیٹھا میری طاقتور برقی ٹارچ کو ادھر ادھر جھاڑیوں میں گھما رہا تھا۔ شمال مغربی طرف سے سڑک پر ہم 6 میل تک گئے لیکن کچھ نہ دکھائی دیا۔ فارسٹ چوکی سے 4 میل آگے تک بھی کچھ نہ ملا۔ واپسی سے پہلے ہم نے گھنٹہ بھر یہاں قیام کیا۔ اس بار واپسی پر ہم نے جنگلی بھینسوں کاجھنڈ دیکھا۔

جونہی کار نزدیک پہنچے تو وہ ہٹ گئے۔ راستے میں کئی چیتل بھی دکھائی دیئے۔ پھر ایک جگہ سڑک کے بیچوں بیچ ایک ہاتھی کھڑا ملا۔ ایک بار میں نے ہلکا سا ہارن بجایا۔ ہاتھی فوراً ہٹ گیا۔ بالاخر ہم انیکٹی پہنچے تو آدم خود کا نشان تک نہ ملا۔

اگلی صبح خوب چمکیلی دھوپ پھیلی ہوئی تھی۔ ناشتے کے بعد مقامی بندے کے ہمراہ میں دوبارہ مویار دریا کی طرف نکلا۔ یہاں 9 میل میں ہمیں آدم خور کا کوئی نشان نہ دکھائی دیا۔ آخر کار ایک جگہ ایک غیر معمولی بڑے جسامت کے تیندوے کے پنجوں کے نشانات ملے۔ اس کے نشانات سے اندازہ ہوتا تھا کہ یہ چھوٹی جسامت کی شیرنی کے برابر ہے۔ میرا بہت دل للچایا لیکن آدم خور کا پیچھا کرنا زیادہ ضروری تھا۔

رات کو ہم نے پھر ایک بار چکر لگایا لیکن صرف ایک سانبھر ہی دکھائی دیا۔

اگلی صبح ہم پھر نکلے اور اس بار ہمارا رخ جنوب مشرق کی طرف تھا۔ نیلگری کی طرف ہمیں چوتھے میل پر ایک جنگلے بھینسے کی لاش ملی۔ سرسری معائینے سے معلوم ہوا کہ وہ اس وبائی بیماری کا شکار ہوا تھا جو ان دنوں اس علاقے میں پھیلی ہوئی تھی۔

اسی شام ماہن ہالا سے اطلاع آئی کہ شیر ایک عورت کو اٹھا گیا ہے۔ یہ حادثہ اس جگہ کے قریب ہوا تھا جو ماہن ہالا ندی کے دریائے سیگور سے ملنے کی جگہ ہے۔ موٹر پر ہم سوار ہو کر جائے حادثہ تک پہنچے جہاں گذشتہ شام کو یہ وقوعہ ہوا تھا۔ یہ عورت چرواہوں کے ساتھ آئی ہوئی تھی۔ ان لوگوں کے پاس مختلف جانور تھے۔

بظاہر اس حادثے کا کوئی عینی شاہد نہ تھا کہ یہ عورت حادثے کے وقت باقی افراد سے الگ ایک دوسری جگہ تھی۔ اس عورت کی چیخیں سن کر اس کے ساتھیوں نے فوراً بستی کا رخ کیا۔ یہاں وہ مزید 6 ساتھی لے کر پلٹے جن میں اس عورت کا شوہر بھی شامل تھا۔ یہاں انہیں اس عورت کی ٹوکری اور اس کے ساتھ شیر کے پنجوں کے نشانات بھی دکھائی دیئے۔ یہ پارٹی فورا پلٹی اور اگلی صبح 4 نواجوانوں کی پارٹی میری طرف بھیجی گئی جو 10 میل کی مسافت طے کرکے میرے پاس پہنچے کیونکہ یہاں پورا علاقہ اب تک جان چکا تھا کہ میں یہاں کیوں آیا ہوا ہوں۔ ہم لوگ جائے حادثہ پر پہنچے اور میرے مقامی ساتھی نے فوراً ہی شیر اور اس کے شکار کے نشانات پا لئے۔ اب میں نے پیچھا کرنے سے قبل سب کو واپس بھیج دیا۔ جانے سے قبل متوفیہ کے شوہر نے مجھ سے وعدہ لیا کہ میں اس کی بیوی کی کچھ نہ کچھ باقیات ضرور لاؤں گا تاکہ وہ اس کی رسومات پوری کر سکے۔

اب ایک لمحہ ضائع کئے بغیر میرے ساتھی نے ان نشانات کا پیچھا شروع کر دیا جو بظاہر مجھے دکھائی بھی نہ دے رہے تھے۔ یہاں سے شیر نے اس علاقے کی طرف کا رخ کیا جو نسبتاً بلندی پر تھا۔ اس علاقے میں میں نے کئی سال پہلے کسی اچھے جنگلی بھینسے کی تلاش میں چکر لگایا تھا۔ یہ پوری پہاڑی تیز اور نوکیلی گھاس سے ڈھکی ہوئی ہے۔ مجھے علم تھا کہ اس علاقے میں شیر کو یا اس کے شکار کو تلاش کرنا بھوسے کے ڈھیر میں سوئی تلاش کرنے کے برابر ہوگا۔

میرے ہمراہی نے بغیر رکے کامیابی سے نشانات کا پیچھا جاری رکھا اور میل بھر بعد ہمیں اس عورت کی ساڑھی ملی جو ایک جھاڑی میں اٹکی ہوئی تھی۔ یہاں شاید شیر نے اپنا ارادہ بدل دیا اور ادھر ادھر گھومنا شروع کر دیا۔ نشانات کا پیچھا کرتے کرتے ہم لوگ ایک نالے میں جا پہنچے۔ یہاں بانس کے درختوں کا ایک جھنڈ تھا۔ بانس کے درخت گھنے تر ہوتے چلے گئے۔ جھنڈ کے نزدیک پہنچنے پر ہمیں گدھ دکھائی دیئے۔ آگے چل کر ہم نے دیکھا کہ جھنڈ میں اس عورت کی لاش موجود تھی۔ پہلے اسے شیر نے اور پھر گدھوں نے پیٹ بھرنے کے لئے استعمال کیا تھا۔ اس کا سر ایک طرف پڑا تھا۔ گدھوں نے آنکھیں نوچ کر الگ کر دی تھیں اور چہرے کا زیادہ تر گوشت بھی کھا چکے تھے۔ اس کے ہاتھوں، پیروں، چوڑیوں، پازیب اور سر کو ہم نے احتیاط سے گھاس کے گٹھر میں باندھ لیا تاکہ متوفیہ کے شوہر سے کیا ہوا وعدہ پورا کر سکوں۔ یہاں بیٹھ کر شیر کا انتظار کرنا کار وارد تھا۔ شیر ان چند ٹکڑوں کے لئے واپس کبھی بھی نہ آتا۔

اگلی رات میں نے پھر چکر لگایا مگر ناکامی ہوئی۔ اگلی صبح ہم نے ایک بچھڑا خرید کر اس جگہ کے قریب باندھا جہاں عورت کی لاش ملی تھی۔ چونکہ یہاں شیر کی واپسی کا بہت کم امکان تھا اس لئے میں نے سوچا کہ اگر بچھڑا مارا گیا تو میں ادھر بیٹھوں گا۔

شومئی قسمت، میرا یہ اندازہ غلط نکلا۔ اگلی صبح میرے ہرکاروں نے بچھڑے کے مارے جانے کی اطلاع دی۔ تین بجے تک مچان تیار تھی اور اس پر بیٹھا میں زمین سے پندرہ فٹ کی بلندی پر محفوظ تھا۔

سب سے پہلا جانور جو یہاں نمودار ہوا وہ ایک لال رنگ کا مارٹن تھا۔ اس نے ساڑھے پانچ بجے شکل دکھائی۔ اس نے پہلے تو گردوپیش کا جائزہ لیا اور ھپر بچھڑے کو کھانا شروع کر دیا۔ 6 بجے تک وہ اچھی طرح سیر ہو چکا تھا۔ میرا خیال تھا کہ اس نے اتنا کھا لیا تھا کہ پوری رات بدہضمی کا شکار رہتا۔

اندھیرا چھاتے ہی تین گیدڑ آئے۔ بچھڑے کی لاش کو سونگھتے وقت وہ بار بار ادھر ادھر دیکھ رہے تھے۔ تھوڑے تھوڑے وقفے سے وہ بری طرح بھڑک کر بھاگتے اور چند لمحے بعد پھر واپس آ جاتے۔ چوتھی بار واپسی پر انہوں نے وہیں ڈیرہ جما لیا اور آرام سے کھانا شروع کر دیا۔ مگر چند ہی لقمے کھاتے ہی اچانک وہ رفو چکر ہو گئے۔

یقیناً یہ شیر کی آمد تھی جس نے انہیں اس طرح بھاگنے پر مجبور کر دیا تھا۔ سرمئی رنگ کے ایک عجیب الخلقت جانور نے چھلانگ لگا کر بچھڑے کی لاش تک پہنچنے کی کوشش کی۔ شیر کبھی بھی اتنی بزدلی سے اپنے شکار پر نہیں لوٹتا۔ یہ لازماً لگڑ بگڑ تھا جو گیدڑ کی طرح بزدل ہوتا ہے۔

دائیں بائیں دیکھتے ہوئے اس نے لاش کو کئی بار سونگھا پھر لاش کے آس پاس گھوم پھر کر دیکھا کہ کوئی خطرہ تو نہیں۔ اس کے بعد اس نے بچھڑے کو کھانا شروع کر دیا۔ دو تین بار اس نے کھانے کے دوران لاش کے گرد چکر بھی لگایا کہ کہیں شیر کی آمد کا وقت تو نہیں ہو چلا۔ نصف گھنٹے تک وہ بار بار یہی کچھ کرتا رہا پھر لگڑ بگڑ نے مطمئن ہو کر کھانا شروع کیا۔

ابھی دس ہی منٹ گذرے ہوں گے کہ شیر کی دھاڑ سنائی دی۔ شیر دو تین بار دھاڑا اور لگڑ بگڑ اس طرح بھاگا جیسے موت اس کا پیچھا کر رہی ہو۔

میں تیار ہو گیا کہ اب شیر کی آمد کا واضح اعلان ہو چکا تھا۔ لیکن کئی گھنٹے گزر گئے اور شیر نہ ظاہر ہوا۔ صبح ہونے تک شیر نہ پہنچا۔ گرمیوں کا موسم تھا لیکن خنکی اتنی بڑھ گئی تھی کہ میں اچھا خاصا ٹھٹھر رہا تھا۔ نا معلوم شیر کیوں نہیں آیا۔ روشنی اچھی طرح پھیلنے تک میں مچان پر ہی رکا رہا۔ جب نیچے اترا تو پورا جسم سخت اکڑا ہوا اور میں بہت تھکن محسوس کر رہا تھا۔ پوری دنیا کے لئے بالعموم اور شیر کی شان میں بالخصوص قصیدے پڑھ رہا تھا۔ کوئی نہیں بتا سکتا کہ شیر اتنا قریب پہنچ کر بھی بچھڑے کو کھانے کیوں نہ آیا۔

اگلے دن میں سارا دن آرام کیا۔ رات کو حسب معمول موٹر پر گشت شروع کر دی۔ لیکن شیر کا کوئی نشان تک نہ ملا۔ انیکٹی کے موڑ سے ذرا پہلے ایک چھوٹے تیندوے نے سڑک کو چھلانگ لگا کر عبور کیا اور سڑک کے کنارے ہی بیٹھ کر مجھے گزرتا ہوا دیکھنے لگا۔ سرچ لائٹ میں اس کی آنکھیں انگاروں کی طرح دہک رہی تھیں۔ میں نے اس خوبصورت جانور کو زندگی کے مزے لینے کے لئے چھوڑ دیا۔

اگلا ہفتہ پرسکون گزرا۔ ہمیں کسی طرف سے شیر کی کوئی خبر نہ ملی۔ میں نے سوچا کہ روانہ ہونے سے قبل میں تین دن مزید رک جاؤں۔ اگلا دن بھی گزر گیا۔ اس سے اگلے دن دوپہر کو علم ہو اکہ ایک مقامی امیر زمیندار کے لڑکے کو شیر لے گیا ہے۔ یہ لڑکا اپنے باپ کے لئے دوپہر کا کھانا لے کر جا رہا تھا۔

جلد ہی میں اپنے مقامی کھوجیوں کے ہمراہ جائے وقوعہ پر پہنچا۔ شیر لڑکے کو ختم کرنے کے بعد اسے اٹھا کر دریائے سیگور سے ہوتا ہوا شمال کی طرف جنگل میں گھسا۔ ہم نے فوراً ہی پنجوں کے نشانات کا پیچھا شروع کر دیا۔ جلد ہی ہمیں لڑکے کی ادھ کھائی لاش نالے میں ہی ایک جگہ چھپی ہوئی ملی۔ بدقسمتی سے لڑکے کا باپ بھی وہیں آ پہنچا اور اس نے فوراً ہی لاش کو ہٹانے پر اصرار کیا۔ گھنٹہ بھر اس سے مغز ماری ہوتی رہی کہ ابھی لاش کو نہ لے جائے تاکہ میں شیر پر گھات لگا سکوں۔

لاش کے موجودہ مقام کے نزدیک کوئی بھی درخت یا چٹان ایسی نہ تھی جہاں میں خود کو چھپا سکتا۔ آخر طے یہ پایا کہ لاش کو اس کے موجودہ مقام سے ہٹا کر پچاس فٹ دور بانس کے ایک جھنڈ تک لے جایا جائے۔ وہاں بانس کے کٹے ہوئے تنوں پر مچان باندھی اور میں اس پر بیٹھ گیا۔ یہ میری زندگی کی سب سے بری مچان تھی۔ ذرا سے جھونکے سے بھی یہ ہلنے لگتی اور اگر میں حرکت کرتا تو بے اندازہ شور پیدا کرتی۔ دوسرا یہ بھی مسئلہ تھا کہ اس جگہ سے لاش تقریباً نظروں سے اوجھل تھی۔ یہاں سے لاش کا فاصلہ تیس گز کے لگ بھگ ہوگا۔ ارد گرد اگے ہوئے بانس کے درختوں نے آس پاس کا تمام تر حصہ چھپایا ہوا تھا۔

آج کی مہم کا آغاز بہت برا تھا۔ ما سوائے ایک مور کے کوئی ذی روح نہ دکھائی دیا۔ مور نے زمین پر چلتے ہوئے نالے کے کنارے سے نیچے اترنا شروع کیا۔ جونہی اس کی نگاہ لاش پر پڑی، بوکھلا کر وہ پر پھڑپھڑاتا ہوا میرے اوپر سے گذرا۔ اس کی دم میرے بالوں سے چھوتی ہوئی گزری۔

نو بجے شیر کی آمد کا اس طرح علم ہوا کہ جہاں اس نے لاش کو چھوڑا تھا، اس طرف سے ہلکی سی غراہٹ سنائی دی۔ پہلے تو میں نے خود کو کوسنا شروع کیا کہ لاش کو ہٹانے کا خیال ہی کیوں آیا۔ پھر یاد آیا کہ ادھر میرے لئے کوئی پناہ گاہ نہیں تھی۔ کھلی زمین پر آدم خور کے انتظار سے بہتر بھی خود کشی کے کئی آسان طریقے ہیں۔

خیر شیر جہاں تھا وہاں سے وہ لاش کو بخوبی دیکھ سکتا تھا۔ اس طرح اس کے لاش پر آنے کی توقع تھی۔ کم از کم اگر میں آدم خور شیر ہوتا تو یہی کرتا۔ لیکن ہماری طرف سے لاش کو ہٹانے سے شاید شیر کو شبہ ہو گیا تھا۔

اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آدم خود درندہ چاہے وہ شیر ہو یا تیندوا یا چیتا، بہت ہوشیار اوردرحقیقت بزدل بھی ہوتا ہے۔ کسی آدمی کو ہلاک کرنے سے قبل وہ پوری طرح گھات لگاتا ہے۔ اچھی طرح یہ اطمینان کرکے کہ اس کا شکار اکیلا ہے، وہ حملہ کرتا ہے۔ ایک سے زائد آدمی ہوں تو وہ بالعموم حملہ نہیں کرتا۔ میری علم میں شاید ہی کوئی ایسا واقعہ ہو کہ آدم خود نے کسی ایسے شخص پر حملہ کیا ہو جو اکیلا نہ ہو۔ اس کے علاوہ ایسی بھی بے شمار مثالیں ہیں کہ شیر کے حملہ کرتے ہوئے اگر دوسرا کوئی شخص مداخلت کرے تو شیر اپنے شکار کو چھوڑ کر بھاگ جاتا ہے۔ ان میں ایک اور اضافی صلاحیت یا چھٹی حس کہہ لیں، ہوتی ہے۔ وہ مسلح اور غیر مسلح آدمی میں تمیز کر سکتے ہیں۔ عموماً وہ مسلح شخص کی موجودگی بھانپ کر بھاگ جاتے ہیں۔ ان کا حملہ عموماً اس وقت ہی ہوتا ہے جب آدمی یا تو غیر مسلح ہو یا پھر بے خبر

اس آدم خور کی چھٹی حس بہت طاقتور تھی اور اس نے فوراً ہی کسی قسم کی گڑ بڑ محسوس کر لی تھی۔ اپنے شکار تک پہنچنے کے لئے اس نے عام راستے سے ہٹ کر چکر لگانے شروع کر دیئے۔ بار بار دھیمی آواز میں غراتا رہا جیسے اسے شکار کا دوسری جگہ منتقل کیا جانا ناگوار گزرا ہو۔ گھنٹہ بھر وہ ادھر ادھر پھرتا رہا۔ آخر کار اس نے اپنا ارادہ بدل دیا اور جنوب کی طرف نکل گیا۔ اس کی جنوب کی طرف دھیمی ہوتی غراہٹوں سے اس کے جانے کا علم ہوا۔ شاید اس طرف اس کی کمین گاہ تھی۔

اس بار آدم خور کے رویئے نے مجھے مجبور کیا کہ میں واپسی کا ارادہ ترک کر دوں۔ مجھے یہ جانور بہت غیر معمولی لگا۔ اس کے علاوہ میں نے سوچا کہ اگر مجھے چھٹی بڑھانی بھی پڑی تو میں بڑھا لوں گا۔

میرے ہمراہیوں کا خیال تھا کہ شیر سے بڑی سڑک پر مڈھ بھیڑ کے امکانات بہت کم ہیں۔ اس لئے ہمیں جنگل میں موجود کچے پکے راستوں اور پگڈنڈیوں پر مٹر گشت کرنی چاہیئے۔ یہ پگڈنڈیاں کار کے سفر کے قابل نہ تھیں۔ میں نے ایک بیل گاڑی کرائے پر لی تاکہ ان پگڈنڈیوں کو چھان سکوں۔ گاڑی بان ایک نڈر اور مضبوط جسامت کا حامل جوان تھا۔ میرے ہمراہی بھی قابل اعتماد اور نہایت عمدہ کھوجی تھے۔ ہمیں امید تھی کہ ہم اس طرح کچھ نہ کچھ کر سکیں گے۔

اگلی تین راتیں اسی طرح گذریں۔ ہم نے اس دوران صرف سانبھروں اور چیتلوں کو دیکھا۔ تیسری رات ایک ہاتھی بھی راستے کے درمیان میں دکھائی دیا۔ ایک بڑے درخت کے نیچے وہ بے حس و حرکت کھڑا تھا۔ بیل گاڑی میں کار کی بیٹری رکھ کر اس سے ہم نے سرچ لائٹ جوڑی ہوئی تھی تاکہ کسی بھی ہنگامی صورتحال میں اچھی خاصی روشنی کر سکیں۔ عام استعمال کے لئے پانچ اور سات سیلوں والی ٹارچیں تھیں۔ ہمیں ہاتھی کی موجودگی کا علم تب ہوا جب وہ ہماری روشنیاں دیکھ کر ہماری طرف لپکا۔ ہم نے اس کی آواز سن کر فوراً سرچ لائٹ جلائی۔ ہاتھی ہم سے کوئی تیس گز دور تھا۔ سرچ لائٹ کی تیز روشنی جب اس کی آنکھوں پر پڑی تو وہ رک گیا۔ ہم نے چھوٹی ٹارچیں بھی جلائیں اور خوب شور مچایا تو ہاتھی ڈر کر بھاگ گیا۔

اسی طرح اگلی تین راتیں بھی گذریں۔ ساتویں دن صبح کو اطلاع ملی کہ شیر نے انیکٹی کے فارسٹ گارڈ کے بیٹے کو ہلاک کر دیا ہے۔ نو بجے جب اچھی طرح روشنی پھیل چکی تھی تو وہ ڈاک بنگلے سے نکل کر اس جگہ آیا جو میرے بنگلے اور اس کی گھر کے درمیان تھی۔ شاید وہ اپنے کتے کو واپس بلانے آیا تھا جو اکثر میرے پاس کھانے کی تلاش میں آ جاتا تھا۔ اس لڑکے کو پھر زندہ نہ دیکھا گیا۔

فارسٹ گارڈ یہ سمجھا کہ لڑکا میری طرف آیا ہوا ہے، اس نے سکھ کا سانس لیا۔ جب لڑکا دوپہر کے کھانے تک نہ پلٹا تو فارسٹ گارڈ نے سوچا کہ وہ خود جا کر اسے واپس لاتا ہے۔ دریا سے فرلانگ بھر ہی دور اسے لڑکے کی ٹوپی دکھائی دی۔ اسے گڑبڑ محسوس ہوئی۔ اس نے فوراً ہی لڑکے کو بلانے کے لئے آواز دینی شروع کر دی۔ جب اسے کوئی جواب نہ ملا تو وہ فوراً میری طرف دوڑا تاکہ ہم مل کر اس کے بیٹے کو تلاش کر سکیں۔

پریشان حال باپ کے ساتھ میں نے رائفل اٹھائی اور فوراً ہی چل پڑا۔ لڑکے کی ٹوپی ابھی تک وہیں پڑی تھی۔ تلاش کرنے پر اس کا ایک سلیپر دس گز دور ایک جھاڑی سے ملا۔ ہمیں بخوبی اندازہ ہو چکا تھا کہ لڑکا جان سے ہاتھ دھو چکا ہے۔ میں نے فارسٹ گارڈ سے کہا کہ وہ فوراً بستی جا کر میرے کھوجیوں کو بلا لائے۔

پندرہ منٹ میں وہ بھی پہنچ گئے۔ ہم نے مل کر تلاش شروع کر دی۔

بظاہر ایسا معلوم ہوتا تھا کہ لڑکے نے سخت مزاحمت کی تھی۔ شاید چلایا بھی ہوگا۔ مگر اس وقت وہاں اور کون تھا جو اس کی مدد کے لئے آتا۔ شیر نے اسی بری طرح بھنبھوڑا تھا کیونکہ گھاس پر خون ہی خون بکھرا ہوا تھا۔ اس کے بعد شیر اسے لے کر آگے بڑھا۔ ہمیں خون کی لکیر دکھائی دی۔

یہاں دریا مغرب کی طرف مڑتا ہے۔ یہاں بھی ہمیں شیر کے پنچوں کے نشانات دکھائی دئیے۔ خون کی لکیر بھی ابھی تک چل رہی تھی۔

یہاں کی نرم مٹی پر ہمیں شیر کے پنجوں کے بہت گہرے نشانات ملے۔ یہاں سے شیر کم گہرے پانی سے ہوتا ہوا دوسرے کنارے پر چڑھ گیا۔ تھوڑا سا آگے چل کر ہم نے جھاڑیوں سے لڑکے کی لاش برآمد کر لی۔ لڑکے کو شیر آدھا کھا چکا تھا اور بقیہ لاش بہت ڈراؤنی لگ رہی تھی۔ ہمارا اندازہ تھا کہ یہاں پہنچنے تک لڑکا زندہ ہی تھا۔ تبھی پورا راستہ خون بہتا رہا۔ شاید یہاں پہنچ کر شیر نے لڑکے کے شور سے ناراض ہو کر اس کی کھوپڑی پر پنجہ رسید کیا۔ کھوپڑی ریزہ ریزہ ہو گئی۔ تیز پنجوں نے کھوپڑی کو چیر کر رکھ دیا تھا۔ کھوپڑی انڈے کی طرح پچکی ہوئی تھی۔ اس پنجے کے سبب ایک آنکھ بھی اپنے حلقے سے نکل کر باہر کی طرف لٹک گئی۔

بیچارہ باپ جو اس وقت لاش سے صرف فٹ بھر ہی دور تھا، نے بقیہ لاش کو چوما اور پھر سر پر خاک اڑانی شروع کردی۔ یقیناً اس کی آہ و زاری سے آسمان کا کلیجہ دہل گیا ہوگا۔

بیچارے غم زدہ باپ کو ہم نے جھنجھوڑ کر سمجھانا شروع کیا کہ وہ جتنا شور کرے گا اور جتنی تاخیر ہوتی جائے گی، شیر کی واپسی کے امکانات اتنے ہی کم ہوتے چلے جائیں گے۔ آخر کار اس بیچارے کی آہ و بکا ہچکیوں اور سسکیوں میں بدل گئی۔

لاش آلو بخارے کی جھاڑی تلے تھی۔ اس جھاڑی پر ایک بڑے جامن کے درخت کا سایہ تھا۔ ہم نے اس درخت پر مچان باندھنے کا منصوبہ بنایا۔ میں نے لڑکے کے باپ اور کھوجیوں کو بنگلے جانے کی ہدایت کی تاکہ وہ میری مچان ادھر لا سکیں۔ ان کی واپسی پر ہم لوگ سب ادھر ہی رہ جاتے تاکہ مچان باندھنے یا پھر مچان پر جاتے وقت اگر اچانک شیر پہنچ جائے تو اسے ہلاک کرنے کا موقع ضائع نہ ہو۔

دونوں کھوجی گھنٹے سے بھی کم وقت میں واپس لوٹ آئے۔ انہوں نے بڑی پھرتی سے میری مچان پندرہ فٹ کی بلندی پر باندھ دی۔ وہ میری ہدایت کے عین مطابق میری ٹارچ، کمبل اور پانی کی بوتل بھی لائے تھے۔ سہ پہر ہوتے ہوتے میں مچان پر بیٹھ گیا۔

سہ پہر شام اور شام رات میں ڈھل گئی۔ شیر کی آمد کا دور دور تک نشان نہ تھا۔ اچانک تیز اور طوفانی بارش شروع ہو گئی۔ بارش کے اختتام پر اولے بھی پڑے۔

بارش اتنی تیز تھی کہ منٹ بھی نہ گزرا ہوگا کہ میں پوری طرح بھیگ گیا۔ میری آنکھوں کے سامنے ہی دریا کا پانی بڑھتے بڑھتے کناروں سے چھلکنے لگا۔

رات گئے تک بارش جاری رہی۔ پھر ہلکی ہوتے ہوتے بوندا باندی میں بدل گئی۔ کچھ دیر بعد بوندا باندی بھی تھم گئی۔ ہوا نے جلد ہی میرے کپڑے خشک کر دیئے۔ سردی بہت بڑھ گئی تھی اور اب ناقابل برداشت ہو چلی تھی۔

اس وقت بنگلے واپس جانے کے لئے میں درجن بھر آدم خوروں کا بھی مقابلہ کر سکتا تھا لیکن طغیانی پر آئے دریا کو عبور کرنا میرے بس سے باہر تھا۔ پانی کے ساتھ درخت، تنے، جھاڑیاں، پتھر، غرض اتنی چیزیں آ رہی تھیں کہ دریا عبور کرنے کی کوشش میں میرے چیتھڑے اڑ جاتے۔

میری مشکلات میں اضافہ کرنے کے لئے سردی اب ناقابل برداشت ہو چلی تھی۔ نیند کی کمی اس پر مستزاد۔ ساتھ ہی اچانک ملیریا کا حملہ ہو گیا۔ گھنٹہ بھر ہی میں میرے دانت بجنے لگے۔ بخار نے بھی شدت پکڑ لی تھی۔ اس حالت میں شیر کا خیال تو کجا مجھے اپنی زندگی خطرے میں دکھائی دینے لگی۔ میں نہیں جانتا کہ میں کیسے مچان پر ہی رہا، نیچے کیوں نہ گرا۔

اگلی صبح آٹھ بجے حسب ہدایت میرے ہمراہی آئے تو میں بیہوش تھا۔ کسی نہ کسی طریقے سے انہوں نے مجھے نیچے اتارا اور پھر دریا کے پار لے گئے۔ اگلے دو دن ملیریا کا زور رہا۔ خوش قسمتی سے میرے پاس مطلوبہ ادویات تھیں۔ تیسرے دن تک میں کافی بہتر ہو چکا تھا۔

ان حالات میں مجھے نمونیہ کیوں نہ ہوا، اس بارے کچھ نہیں کہہ سکتا۔

تین دن بعد میں جب کچھ بہتر ہوا تو مجھے میرے ساتھیوں نے بتایا کہ اس رات کو طوفان کے دوران یا بعد میں شیر واپس آیا تھا۔ مجھے اپنی خوش قسمی پر ناز سا ہونے لگا کہ اگر میں اس رات نیچے گر جاتا تو شیر کو مفت میں دوسرا تازہ شکار مل چکا ہوتا۔

میں اگلے دو دن تک آرام کرتا رہا اور انتظار رہا کہ کب شیر کی مزید کسی سرگرمی کی اطلاع ملتی ہے۔ تیسرے دن میں نے تین بچھڑے خریدے۔ ایک کو سیگور، دوسرے کو انیکٹی اور تیسرے کو ماہوان ہالا میں باندھا۔ اگلی صبح تینوں ہی زندہ سلامت تھے۔ میں نے اب اپنی معمول کی سرگرمیاں بحال کر دی تھیں اور جنگل میں مٹر گشت بھی بحال ہو گئی تھی مبادا کہ شیر سے اتفاقاً ملاقات ہو جائے۔

دو دن بعد ہی اچانک قسمت کی دیوی مہربان ہو گئی۔ میں نے ویسے ہی سوچا تین ہفتے تو بیکار گزرے۔ کیوں نہ اپنے کھوجیوں کے ہمراہ دریئاے سیگور کے ساتھ ساتھ چند میل چل کر دیکھ لوں۔ کیلے کے جھنڈ کے پاس میں نے کار چھوڑی اور ہم لوگ روانہ ہو گئے۔

اس جگہ سے بمشکل میل بھر نیچے کی طرف ہی ایک دلدلی علاقہ ہے۔ یہ علاقہ کئی سال پہلے تک جنگلی بھینسوں کی بہت عمدہ پناہ گاہ تھی۔ آج بھی مقامی لوگ اسے جنگلی بھینسوں کی دلدل کے نام سے پکارتے ہیں۔ اس سے نصف میل دور دریا کے دونوں اطراف بانس کے گھنے جھنڈ ہیں۔ یہ جھنڈ ہاتھیوں، سانبھروں اور کبھی کبھار شیروں کو بھی مرغوب ہوتے ہیں۔

ساڑھے آٹھ بجے ہم جھنڈ میں داخل ہوئے۔ اسی وقت دریا کے دوسری طرف سے سانبھر کی آواز آئی۔ اس کے ساتھ ہی ایک بارہ سنگھا بھی بولا۔ ہم لوگ فوراً گھاس میں دبک گئے۔ دونوں جانور وقفے وقفے سے بولتے رہے۔ صاف ظاہر تھا کہ انہوں نے کوئی خطرہ محسوس کیا تھا۔

پہلے تو میں یہ سمجھا کہ ان جانوروں نے ہمیں دیکھ لیا ہے۔ لیکن فوراً ہی اس خیال کی تردید ہو گئی کہ ہوا مخالف سمت میں چل رہی تھی اور ہم لوگ اتنی گھنی جھاڑیوں میں تھے کہ ہمارا دیکھا جانا ناممکن تھا۔ اس کے علاوہ ہم لوگ بہت محتاط اور آہستہ انداز سے چل رہے تھے۔ اس لئے صرف یہی امکان تھا کہ شیر یا تیندوے کو دیکھ کر ہی یہ جانور بول رہے تھے۔ ورنہ اس وقت اس خطرناک علاقے میں انسان کی موجودگی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔

ہم جھاڑیوں کے قریب تقریبا 10 منٹ تک دبکے رہے۔ پھر اچانک دریا سے ہمیں بہت سارے چھوٹے چھوٹے پتھروں کے لڑھکنے کی آواز آئی۔ ایک فاختہ اور اس کے پیچھے بارہ سنگھا دوڑتے ہوئے گزرے اور ہماری طرف سے جنگل میں گھس گئے۔

چند ہی لمحوں میں ہم نے خاموشی، نفاست اور نڈر پن کے ساتھ شیر دریا کے سامنے والے کنارے سے نکلا۔ اس نے پانی میں قدم رکھا اور چلتا رہا۔ جب پانی اس کے سینے تک پہنچا تو اس نے چھلانگیں لگانا شروع کر دیں۔

نہایت احتیاط سے نشانہ لیتے ہوئے میں نے اس کے بائیں شانے کے پیچھے فائر کیا۔ گولی کھاتے ہی شیر اچھل کر گرا اور کراہتے ہوئے واپس اسی طرف مڑ گیا جہاں سے وہ آ رہا تھا۔ اپنی پناہ گاہ سے نکلتے ہوئے میں نے چالیس گز کا فاصلہ تقریباً دوڑ کر عبور کیا جہاں سے شیر کا چہرہ مجھے صاف دکھائی دے رہا تھا۔ اس کا بقیہ حصہ پانی میں ڈوبا ہوا تھا۔ یہاں میں نے مزید پندرہ منٹ تک انتظار کیا کہ جونہی شیر ہلے میں دوسری گولی چلاؤں۔ لیکن شیر مر چکا تھا۔

جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں کہ آدم خور کے پنجوں کے معائینہ کر چکا تھا، اس شیر کے نشانات اسے آدم خور ہی ثابت کرتے تھے۔ اس طرح مجھے یقین ہوا کہ اتنی کوششوں کے بعد بالآخر آدم خور مارا جا چکا ہے۔

شیر کے آدم خور بننے کی وجہ صاف ظاہر تھی کیونکہ اس شیر کی صرف ایک آنکھ تھی۔ دوسری آنکھ سکڑ کر نہ ہونے کے برابر رہ گئی تھی۔ کھال اتارتے ہوئے میں نے چاقو سے اس سکڑی ہوئی آنکھ کو نکال کر کریدا تو اس میں سے بندوق کا ایک چھرہ نکلا۔

ظاہر ہے کہ شیر کو اسی معذوری نے آدم خوری کی طرف مائل کیا۔ کسی ناجائز شکاری نے اس پر اپنی مزل لوڈنگ بندوق سے فائر کیا ہوگا جس سے شیر کانا ہو گیا۔ درد کی شدت سے مجبور ہو کر اور معذوری کی وجہ سے اس نے انسان سے بدلہ لینے کے لئے آدم خوری شروع کی ہوگی۔
Powered by Blogger.