Saturday, November 3, 2007

تگراٹھی کے شیر

اگر میسور کی ریاست میں شموگا کے ضلع کی مغربی سرحد کی طرف سفر کریں تو بنگلور اور اس کے گرد و نواح کی نسبت یہاں کے مناظر اچانک ہی بدل جاتے ہیں۔ یہاں آپ ہر طرف سے سدا بہار جنگلات میں گھر جاتے ہیں جو برساتی نالوں سے سیراب ہوتے ہیں۔ یاں بارش کی سالانہ اوسط 120 انچ سے زیادہ ہے۔ شموگا اور اس کے مغرب میں سالانہ بارش 250 انچ سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ اگمبے اور اس کے مغرب میں چیل کے بلند و بالا درخت ہیں جن کی چوٹیاں آسمان کو چھوتی نظر آتی ہیں۔ درختوں پر کائی اور فرن وغیرہ عام ملتے ہیں۔ سبزے کی یہاں اس خطے میں بہتات ہے۔ یہاں کانٹے دار جنگلات نہیں پائے جاتے۔ ہر ممکن جگہ پر سبزہ اور گھاس اگی ہوتی ہے۔ جھینگر اور مینڈک کے سوا کسی جانور کی آواز سنائی دینا محال ہے۔ درختوں کی نچلی شاخوں سے لٹکی ہوئی جونکیں عام ہیں۔ کسی بھی جاندار کے قریب سے گزرنے پر یہ اس سے چمٹ جاتی ہیں۔ کپڑوں کے اندر بھی گھس جاتی ہیں اور خون چوسنا شروع کر دیتی ہیں۔ آپ کو ان کی موجودگی کا علم تک نہیں ہوگا کہ ان کے کاٹنے سے درد نہیں ہوتا۔ نظر پڑنے پر یا رستے ہوئے خون کے ان کی کارگزاری کا پتہ چل سکتا ہے۔ اگر جونک کو خون چوسنے کے دوران نوچنے کی کوشش کی جائے تو اس جگہ پر ایک بڑا سا زخم بن جاتا ہے۔ اگر جونک پر تھوڑا سا نمک یا پھر تمباکو کا عرق لگا دیا جائے تو یہ فوراً ہی الگ ہو جاتی ہیں۔ اس طرح بننے والا زخم معمولی نوعیت کا ہوتا ہے اور جلد ہی بھر جاتا ہے۔

یہ علاقہ کنگ کوبرا کا بھی مسکن ہے۔ کنگ کوبرا کوبرا کے خاندان کا سب سے بڑا سانپ ہے۔ اس کی لمبائی پندرہ فٹ کے لگ بھگ ہوتی ہے۔ اس کا رنگ گہرا زیتونی اور جسم پر ہلکے پیلے سے دائرے بنے ہوتے ہیں۔ اس کے سر پر کوئی نشان نہیں ہوتا۔ بڑی جسامت کے برعکس اس کی رفتار بہت تیز ہوتی ہے۔ اس کی خوراک دوسرے سانپ ہوتے ہیں۔ یہ بہت بد مزاج ہوتا ہے۔ انسان کو دیکھتے ہی حملہ کر دیتا ہے۔ انڈوں پر بیٹھی سپنی زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔ میرا اس سانپ سے دو بار آمنا سامنا ہوا ہے۔ ایک بار جب میں اپنے اکیوریم کے لئے ایک نایاب قسم کی مچھلی تلاش کر رہا تھا اور دوسری بار پھولوں کے ایک کنج کو دیکھتے ہوئے۔ دونوں بار ہی مجھے دیکھ کر یہ سانپ فرار ہو گئے۔

اونچے درختوں کی چوٹیاں نہایت خوبصورت پھولوں کا مسکن ہیں۔ یہ پھول مختلف بیلوں کے بھی ہو سکتے ہیں اور ان درختوں کے اپنے بھی۔ گرمیوں میں گلابی، پیلے، سفید غرض لاتعداد قسم کے رنگوں کے پھول عجب بہار دکھاتے ہیں۔

یہاں اس ضلع میں دریائے شیراوتی بھی موجود ہے۔ یہاں اس کی چار شاخیں ہیں۔ جوگ کے مقام پر یہ دریا ایک ساڑھے نو سو فٹ بلند آبشار کی مانند گرتا ہے۔ یہاں چاندنی رات میں چاند کی روشنی سے بننے والی کہکشاں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔

تگراٹھی کا گاؤں ساگر قصبے سے گیارہ میل دور اور جنوب مشرق میں واقع ہے۔ یہ سدا بہار جنگلات کی مشرقی سرحد پر واقع ہے۔ یہاں کاشتکاری زوروں پر ہے۔ یہاں کی مٹی انتہائی زرخیز اور بارش بکثرت ہوتی ہے۔ اس لئے یہ جگہ زراعت کے لئے انتہائی پرکشش اور منافع بخش ہے۔ قدرتی گھاس بھی کثرت سے اگتی ہے اور زرعی زمینوں کو چھوڑ کر ہر ممکن جگہ پر اگتی ہے۔ دن کے وقت گاؤں سے مویشی یہاں چرنے کے لئے بھیجے جاتے ہیں۔

جنگلی بھینسے سے بڑے جانور یہاں کم ہی ملتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ گھنے جنگلات، پسو اور جونکیں ہیں۔ ابتدا میں چرندوں کی کمی کی وجہ سے یہاں شاید ہی کوئی درندہ پایا جاتا ہو۔ لیکن کاشتکاری اور چراگاہوں میں اضافے اور نئے مویشیوں کی تعداد جوں جوں بڑھ رہی ہے، درندوں کی تعداد بھی بڑھتی جا رہی ہے۔

تگراٹھی بھی ایک ایسا ہی علاقہ تھا۔ میں اس علاقے میں اکثر آتا جاتا رہتا تھا اور مجھے کبھی بھی چار سے زائد شیروں کی اطلاع نہیں ملی۔ فروری 1939 میں مجھے معلوم ہوا کہ ایک ہی دن میں 8 مویشی مارے گئے ہیں۔ یہ تمام ہلاکتیں تگراٹھی کے آس پاس ہی ہوئی تھیں۔ لازما یہ 8 مختلف درندوں کا کام تھا۔

8 شیروں کی موجودگی کے باعث یہاں تیندوے اور چیتے نہ ہونے کے برابر تھے۔ جو تھے ان کا گزارہ آوارہ کتوں، بکریوں اور کبھی کبھار مرغیوں پر تھا۔ اگر شیروں کو کہیں چیتا دکھائی دے جائے تو وہ اسے مار کر کھا بھی جاتے ہیں۔

چیتل کے علاوہ اس جگہ شاید ہی کوئی اور جنگلی جانور ملتا ہو۔ یہاں کے تقریباً تمام ہی شیر لاگو یعنی مویشی خور ہیں۔ ان کی اکثریت بہت طاقتور اور موٹی ہوتی ہے جو کہ اس شیر سے مختلف ہوتے ہیں جس کا گزارا حقیقتاً جنگلی چرندوں پر ہوتا ہے۔

میں اب آپ کو شام راؤ باپت کی کہانی سناتا ہوں کہ اس نے انہی شیروں میں سے ایک شیر کو کیسے اپنے گھر کے باغیچے میں ہی ہلاک کیا۔ شام راؤ بائیس برس کا ایک نوجوان ہے اور اپنے والدین کی اکلوتی اولاد۔ اس نے گھر اور اس کے ساتھ موجود زرعی زمین کا نظام بخوبی سنبھالا ہوا ہے۔ اسے اپنے کام سے حقیقی معنوں میں محبت ہے۔ اس کے کھیتوں میں چاول، راگی کی فصلیں اور ناریل اور پام کے درخت ہیں۔ ان درختوں پر انگوروں کی بیلیں چڑھی ہوئی ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ بہت سارے مویشیوں کا مالک بھی ہے۔ وہ حقیقی معنوں میں ایک خوشحال زمیندار تھا۔

ایک دن ایک موٹے شیر نے شام راؤ کے خوشحال گھر سے خراج وصول کرنے کا سوچا۔ یکے بعد دیگرے شام راؤ کے مویشی اس کا شکار ہونے لگے۔ شام راؤ کے پاس ایک پرانی بندوق بھی تھی۔ اس نے بندوق میں گولی والا کارتوس بھرا اور شیر کا انتظار کرنے کے لئے ایک جانور کی لاش کے ساتھ درخت پر بیٹھ گیا تاکہ شیر پلٹے اور وہ اسے گولی مار سکے۔ شیر بھی ایک کایاں نکلا اور اس نے شکل نہ دکھائی۔ شاید وہ پہلے کسی شکاری کی گولی کھائے ہوئے تھا۔

اب شیر کی ہمت بڑھ چکی تھی۔ ایک رات کو وہ شام راؤ کے گھریلو باغیچے کی باڑ پھلانگ کر اندر داخل ہوا اور باڑے کے گیٹ پر لگے بانس کو ہٹانے کی کوشش کرنے لگا۔ اندر بند مویشیوں نے اچھا خاصا ہنگامہ برپا کر دیا۔ شام راؤ کی آنکھ اس ہنگامے سے کھل گئی۔ اس کے باہر نکلنے سے قبل ہی شیر فرار ہو گیا۔

اگلی رات کو شام راؤ نے باڑے کی چھت پر ایک محفوظ پناہ گاہ بنا کر شیر کا انتظار کرنے کی ٹھانی۔ رات کو 10 بجے شیر آیا اور دروازے کو کھرچنے لگا۔ شام راؤ نے کوئی فٹ بھر کے فاصلے سے اس پر بندوق کی دونوں نالیں خالی کر دیں۔ شیر بغیر کوئی آواز نکالے وہیں ڈھیر ہو گیا۔ یہ نہایت فربہہ اور مویشی خور شیر کی بہترین مثال تھا۔

منظر بدلتا ہے۔ اب ساڑھے گیارہ کا وقت ہے اور خوب دھوپ نکلی ہوئی ہے۔ میں اپنی بیوی کے ہمراہ فارسٹ بنگلے میں ہوں۔ یہ بنگلہ تگراٹھی سے اڑھائی میں دور ہے۔ دوپہر کا کھانا قبل از وقت تیار ہے اور میری بیوی چند سینڈوچ تیار کر رہی ہے۔ اچانک بنگلے سے متصل جنگل سے کاکڑ (ایک قسم کا ہرن جس کی آواز بھونکنے سے مشابہہ ہوتی ہے) کی آواز آئی۔ یہ آواز مسلسل آتی رہی۔ میں نے فوراً بوٹ پہنے اور رائفل اٹھائے باہر نکلا۔ فائر لائن کو عبور کر کے میں جنگل میں گھسا۔ کاکڑ ابھی تک بولے جا رہا تھا۔ میں ہر ممکن کوشش کر رہا تھا کہ اس تک کم سے کم وقت میں اور بغیر شور کئے پہنچ جاؤں۔ جلد ہی میں اس جگہ آ پہنچا جہاں کاکڑ موجود تھا۔ اس کا رخ سامنے کی طرف تھا اور مسلسل بولے جا رہا تھا۔ میں دوبارہ جنگل میں گھسا تاکہ دوسری طرف سے چکر کاٹ کر اس طرف جا سکوں جس طرف کاکڑ دیکھ کر شور کر رہا تھا۔ یہاں ایک جگہ ٹیک کے درختوں کا گھنا جھنڈ تھا۔ ٹیک کے پتے زمین پر موجود تھے۔ اگر ان پر پیر پڑتا تو بہت زیادہ شور پیدا ہوتا۔ اس لئے میں رک گیا اور ایک بہت بڑے ٹیک کے ہی درخت کے تنے کے پیچھے چھپ گیا اور سامنے دیکھنے لگا۔ اچانک کچھ فاصلے پر حرکت ہوئی۔ میں نے پوری توجہ ادھر مرکوز کی۔ ایک شیر، بالکل بے خبر پشت کے بل سو رہا تھا۔ اس کی دم بار بار ہل رہی تھی۔ دم کے ہلنے سے مجھے اس کی موجودگی کا علم ہوا۔

سوئے ہوئے شیر کو ہلاک کرنا شکار کی روح کے خلاف ہوتا۔ دوسرا مجھے اس شیر سے کوئی دشمنی بھی نہیں تھی۔ میں نے رائفل جھکا کر درخت سے ٹیک لگائی اور شیر کو دیکھنے لگا۔ شیر کوئی بیس منٹ تک مزید سوتا رہا۔ اس کے بعد اچانک بنگلے کی جانب سے میری بیوی کی آواز آئی جو مجھے کھانے کے لئے بلا رہی تھی۔ شیر فوراً اپنی نیند سے بیدار ہوا اور نیم وا آنکھوں سے بنگلے کی طرف دیکھنے لگا۔

خاموشی سے میں اس کے سامنے نکل آیا۔ میری رائفل گولی چلانے کے لئے تیار حالت میں تھی۔ میری آمد کی آہٹ سن کر شیر نے فوراً رخ بدلا اور نہایت حیرت سے میری طرف دیکھنے لگا کہ یہ انسان اتنی خاموشی سے اس کے اتنے قریب پہنچ گیا۔

پھر اس نے ہلکی سی میاوں کی اور پھر مڑ کر جنگل کی طرف چل پڑا۔ میں نے اسے جانے دیا۔ جلد ہی وہ نظروں سے اوجھل ہو گیا۔

ایک دوسرے موقع پر میں اور میری بیوی رات کے وقت جنگل کی سیر کرنا چاہ رہے تھے۔ ہم نے ایک بیل گاڑی کرائے پر حاصل کی۔ رات کے وقت ہم جنگل میں روانہ ہوئے۔ ہمارا پروگرام ٹارچ کی روشنی میں جنگل کا مشاہدہ کرنے کا تھا۔ ہم ابھی بنگلے سے میل بھر ہی گئے ہوں گے کہ اچانک میری بیوی کی ٹارچ کی روشنی میں دو روشن آنکھیں دکھائی دیں۔ یہ آنکھیں جنگل میں کافی دور تھیں۔ ہم نے بیل گاڑی رکوائی اور نیچے اتر کر اس طرف چل پڑے۔ میری بیوی کی ٹارچ کا رخ مسلسل اسی طرف تھا جہاں آنکھیں دکھائی دے رہی تھیں۔ میری بیوی ٹارچ جلائے آگے آگے اور میں رائفل چھتیائے پیچھے پیچھے تھا۔ اب تک وہ آنکھیں گم ہو چکی تھیں۔ ہم نے وہاں ایک پگڈنڈی دیکھی اور اس پر چل پڑے۔ تھوڑی دیر بعد وہ آنکھیں پھر چمکیں۔ خوش قسمتی سے یہاں گھاس وغیرہ بالکل نہ تھی اور آسانی سے اس طرف جا سکتے تھے۔ ابھی ہم چند ہی قدم بڑھے ہوں گے کہ جھاڑی سے شیرنی نکل آئی۔ اس نے پہلے تو ہمیں دیکھا پھر مڑ کر جھاڑی کی طرف، جہاں سے وہ نکلی تھی۔ مجھے بہت عجیب لگا۔ اس کےپیچھے اس کے دو بچے بھی نکل آئے اور ماں سے لپٹ گئے۔

شیرنی ہمیں چند لمحوں تک دیکھتی رہی اور پھر جنگل کی طرف چل پڑی۔ ساتھ ہی اس نے ہلکی سی میاؤں کی آواز بھی نکالی جو شاید بچوں کو بلانے کا اشارہ تھا۔ بچے بھی فوراً اس کے پیچھے چل پڑے اور جلد ہی وہ نظروں سے اوجھل ہو گئے۔

میری بیوی نے ٹارچ اسی طرف جلائے رکھی کہ شیرنی پلٹ نہ آئے۔ اچانک ہمیں دوسری طرف سے ہلکی سی غراہٹ سنائی دی۔ ہم لرز گئے۔ ہمارے سامنے اب ایک بڑا نر شیر موجود تھا۔ شاید یہ پورا خاندان پیاس بجھانے ندی پر آیا ہوا تھا۔ اتنے چھوٹے بچوں کے ساتھ شیرنی عموماً نر شیر سے الگ ہی رہتی ہے کیونکہ نر عموماً چھوٹے بچوں کو مار دیتا ہے۔

اب صورتحال کافی گھمبیر ہو چکی تھی۔ نر یا مادہ، کسی بھی طرف سے حملے کا امکان بڑھ چکا تھا۔ میری بیوی نے کافی ہمت کا مظاہرہ کیا اور ثابت قدم رہی۔ نر نے ہلکی سی غراہٹ کے ساتھ حرکت کی اور اس طرف چل پڑا جہاں اس کا بقیہ خاندان گیا تھا۔

اس طرح یہ صورتحال، جس کا انجام کافی بھیانک بھی ہو سکتا تھا، بخوبی سنبھل گئی۔ بیچارہ گاڑی بان گاڑی میں اکیلا تھا اور اس نے شیروں کی آوازیں سن لی تھیں۔ پھر شاید اس کے بیلوں نے شیروں کی بو محسوس کر لی یا پھر ان کی غراہٹ سن لی اور گاڑی کے ساتھ ہی سر پٹ دوڑے۔ آگے چل کر راستہ ایک ندی سے گزرتا ہے۔ یہاں آ کر پانی اور کیچڑ میں بیل گاڑی پھنس گئی۔ اب گاڑی بان نے خوف سے چلانا شروع کر دیا اور ساتھ ہی بیل بھی شیروں کی وجہ سے ڈکرانے لگے۔ ہم یہ سمجھے کہ شیروں نے بیل گاڑی پر حملہ کر دیا ہے۔ ہم فوراً اس طرف بھاگے۔ وہاں جا کر ہمیں اندازہ ہوا کہ سب خیریت ہے۔ صرف گاڑی بان حد سے زیادہ خوفزدہ تھا۔ ہمیں خوشی ہوئی کہ شیروں نے گاڑی بان یا پھر بیلوں سے الجھنے کی کوشش نہیں کی تھی۔

میسور میڈیکل سروس کا میرا ایک دوست ڈاکٹر سٹینلے کو اس کے محکمہ کی طرف سے تگراٹھی بھیجا گیا تھا کہ یہاں ملیریا اب وبائی صورت اختیار کر چکا تھا۔ اکثر مقامی باشندے اس کی لپیٹ میں تھے۔ یہ ڈاکٹر بہت منچلا تھا اور اسے شیروں کے شکار کا کافی شوق تھا۔ اس نے اس دوران کئی شیر بھی مارے تھے۔ ایک رات اسے ایک زچگی کے لئے بلاوا آیا۔ اسے بیلندور نامی وادی جانا تھا۔ اپنے پیشے سے عشق کرنے والا ڈاکٹر فوراً دواؤں اور اوزاروں والا بیگ، اپنی بندوق، پانچ سیل والی ٹارچ اور پٹیاں وغیرہ لے کر بیل گاڑی میں سوار ہوگیا۔

ابھی وہ راستے میں ہی تھا کہ ایک شیر نے چھلانگ لگا کر سڑک عبور کی اور کنارے ہی بیٹھ کر گاڑی کو گزرتے ہوئے دیکھنے لگا۔ سٹینلے نے بندوق سے گولی والا کارتوس چلایا۔ گولی کھاتے ہی شیر اچھلا اور دھاڑتا ہوا جنگل میں گم ہو گیا۔

ڈاکٹر نے زیادہ توجہ نہ دی اور آگے بڑھ گیا۔ اس نے زچہ کی مشکل دور کی اور رات زچہ بچہ کے ساتھ گزاری۔ اگلی صبح وہ ایک مقامی چھوٹے سے لڑکے کو ساتھ لے کر پلٹا۔ اس نے گاڑی بان کو اس جگہ چلنے کو کہا جہاں اس نے رات کو شیر پر گولی چلائی تھی۔

اس جگہ پہنچ کر اس نے دیکھا کہ وہاں شیر کا خون کافی مقدار میں بکھرا ہوا تھا۔ ڈاکٹر نے پیچھا کرنے کی ٹھانی۔ گاڑی بان نے عذر کیا کہ بیل اکیلے نہیں چھوڑے جا سکتے۔ ڈاکٹر لڑکے کے ساتھ ہی اس طرف چل پڑا۔ تھوڑا آگے چل کر انہیں شیر زمین پر پڑا ہوا دکھائی دیا۔ ڈاکٹر سمجھا کہ شیر مر چکا ہے۔ اس نے یقین کرنے کے لئے LG کا کارتوس شیر کی پچھلی ران پر چلایا۔ کارتوس لگتے ہی شیر اچھلا اور ڈاکٹر پر حملہ کر دیا۔ ڈاکٹر نے فوراً ہی شیر کے منہ میں دوسری نالی سے گولی چلائی۔ اگلے ہی لمحے شیر ڈاکٹر پر تھا اور اس نے ڈاکٹر کی کھوپڑی پر سے کافی ساری کھال نوچ لی تھی۔ اب لڑکا بیچارہ چیختا ہوا بھاگا۔ اب شیر نے ڈاکٹر کو چھوڑا اور لڑکے پر حملہ کر دیا۔ اس نے لڑکے کو پہلو سے جا پکڑا۔ ڈاکٹر نے اپنے زخم کی پروا کئے بغیر بندوق کو دوبارہ بھرا ہی تھا کہ شیر لڑکے کو چھوڑ کر فرار ہو گیا۔

لڑکا بیچارہ بری طرح زخمی تھا۔ اس کے پہلو، کمر اور سینے پر زخم تھے۔ تین پسلیاں بھی ٹوٹ چکی تھیں۔ ڈاکٹر نے اپنی پھٹی ہوئی قمیض سے لڑکے کے لئے پٹیاں بنا کر اس کے زخم باندھے اور پھر اسے کمر پر لاد کر بیل گاڑی تک پہنچا۔ وہاں سے وہ سترہ میل دور ساگر کی طرف چلے۔ ساگر سے انہوں نے شموگا کا رخ کیا جو پینتیس میل مزید دور تھا۔ شموگا میں ضلعی بڑا ہسپتال تھا۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ لڑکا اور ڈاکٹر، دونوں بچ گئے۔ ڈاکٹر کو اس کے افسران بالا سے اچھی طرح ڈانٹ پھٹکار پڑی کہ وہ بطور ڈاکٹر ہی اپنا کام جاری رکھے اور شیروں کا شکاری بننے کی کوشش نہ کرے۔

ان دونوں کے بچ جانے کی وجہ دراصل شیر کا شدید زخمی ہونا تھا۔ ڈاکٹر کے دوسرے فائر سے شیر کا نچلا جبڑہ بیکار ہو گیا تھا۔ لڑکے اور ڈاکٹر، دونوں کے زخموں پر شیر کے صرف اوپر والے دانتوں کے نشانات تھے۔ اگر شیر کا نچلا جبڑہ بھی سلامت ہوتا تو دونوں کا زندہ بچنا ناممکن ہو جاتا۔

اس دن کے بعد گاؤں کے لوگوں نے ہفتے بھر تک جنگل سے شیر کے بار بار دھاڑنے کی آوازیں سنیں۔ ایک دن اچانک خاموشی چھا گئی۔ لوگ سمجھے کہ شیر جنگل میں کہیں دور جا کر مر گیا ہوگا۔ اس کی لاش کسی کو نہ مل سکی۔

سٹینلے نے مجھے دو مزید واقعات سنائے۔ پہلے میں جب وہ شیر کے انتظار میں مچان پر بیٹھا تھا کہ ایک کنگ کوبرا نے اس درخت پر چڑھنا شروع کیا۔ ڈاکٹر نے اسے اس وقت تو بھگا دیا لیکن اندھیرا چھاتے ہی اسے سانپ کی واپسی کا وہم ستانے لگا۔ یہ وہم اتنا بڑھا کہ اسے اندھیرے میں ہی گاؤں پلٹنا پڑا۔

دوسری بار جب وہ مچان پر بالکل ہی سامنے بیٹھا تھا کہ اسے شیر نے دیکھ لیا۔ ساری رات شیر اس درخت کے آس پاس چکر لگاتا رہا اور دھاڑتا بھی رہا۔ اس دوران بوندا باندی بھی شروع ہو گئی۔ شیر کے جانے کے بعد بھی ڈاکٹر کی ہمت نہ ہوئی کہ وہ نیچے اترتا کیونکہ کافی اندھیرا باقی تھا۔

تگراٹھی کے قابل رسائی حصوں میں گھومتے ہوئے ایک بار میں نے ایک نوعمر شیرنی کی لاش دیکھی۔ اس کے منہ اور سینے میں سیہہ کے کل تئیس کانٹے پیوست تھے۔ ایک کانٹے نے تو اس کی دائیں آنکھ ہی نکال دی تھی۔ اس سے کچھ دور ایک تیندوے کی ادھ کھائی لاش بھی موجود تھی۔ بظاہر ایسا لگتا تھا کہ شیرنی نے سیہہ کو مارنا چاہا تھا کہ اس نے اتنے سارے کانٹے کھائے۔ آنکھ بھی گنوائی۔ بھوک سے شاید نڈھال ہو کر خوراک کی تلاش میں اس کی مڈھبیڑ تیندوے سے ہوئی۔ دونوں کی لڑائی ہوئی اور آخر کار شیرنی نے تیندوے کو مار ڈالا۔ وہ اسے کھا ہی ہی تھی کہ موت نے اسے بھی آ لیا۔ شاید سیہہ والے زخم اور تیندوے سے لگنے والے زخموں نے کچھ دیر بعد اثر دکھایا ہوگا۔ لاشیں ادھ سڑی ہوئی تھیں اور یقین سے کچھ کہنا مشکل ہی تھا۔

بیلندور کی وادی میں ایک عجیب اور پراسرار شخصیت "بدھیا" بھی تھی۔ مقامی لوگ اسے کالے جادوگر کے طور پر جانتے تھے۔ اس کے بارے مشہور تھا کہ وہ جادو ٹونے سے کئی افراد کو مار بھی چکا ہے۔ یہ شخص میرا اچھا دوست تھا۔ اس بار رات گئے باتوں کے دوران اس نے مجھے ایک لکڑی سے بنا ہوا گول سا تختہ دیا۔ یہ تختہ نما چیز کوئی چھ انچ قطر کی ہوگی۔ بقول اس کے، یہ تختہ بہت ہی دور دراز کے جنگلوں کی لکڑی سے بنایا گیا تھا۔ اس نے درخواست کی کہ میں اس تختے کو شکار کی مہمات کے دوران اپنے پاس رکھوں۔ اگر کبھی کوئی جانور نہ مل رہا ہو تو سورج کے غروب ہونے کے بعد میں اس تختے کو اپنی رائفل یا بندوق کی نالی سے تین بار اوپر سے نیچے مس کروں۔ اس نے یقین دلایا کہ آئیندہ چوبیس گھنٹوں میں وہ جانور اسی رائلف یا بندوق سے مارا جائے گا۔ مجھے یہ بتاتے ہوئے شرمندگی ہو رہی ہے کہ میں نے اس ٹونے کو ایک بار نہیں، کئی بار آزمایا اور ہر بار یہ کامیاب ہوا ہے۔ آپ اسے قسمت کہیں یا اتفاق، یہ آپ کی مرضی۔

آہ، ایک دن میرا یہ دوست "بدھیا" ملیریا کی لپیٹ میں آ کر مر گیا۔ اس کا کالا جادو بھی اس کو ملیریا سے نہ بچا سکا۔

اب کچھ ذکر گوجا کے آدم خور کا بھی ہو جائے۔ گوجا تگراٹھی سے چھ میل دور ایک اور وادی ہے۔ تگراٹھی سے املی گولا کی فارسٹ چوکی کے درمیان ہی گوجا واقع ہے۔ یہ چوکی کراڈی پٹہ کے گیم ریزرو کی سرحد پر ہے جسے ہز ہائی نس مہاراجہ میسور نے اپنے ذاتی شکار کے لئے مختص کیا ہوا ہے۔ چونکہ اس جنگل میں مویشی لے جانے کی ممانعت ہے، شیروں کو مویشی کھانے کو نہیں ملتے۔ اس جنگل کے فوراً ساتھ ہی مویشیوں کی موجودگی شیروں کے لئے کافی کشش کا باعث ہے۔ دوسرا شیر اتنے عقلمند بھی نہیں ہوتے کہ وہ کسی فرضی سرحد سے باہر نہ نکلیں۔ اس لئے شیروں کو جنگل میں رہنے سے زیادہ جنگل سے باہر نکلنے میں دلچسپی رہتی ہے۔

1938 میں ایک شیر نے عجیب نیا کام شروع کیا۔ وہ ریزور جنگل سے نکلتا، مویشی مارتا، اسے کھاتا اور پھر فوراً ہی ریزور جنگل میں چلا جاتا۔ اس جنگل میں کسی کو جانے کی اجازت نہ تھی۔ ظاہر ہے کہ یہ شیر جلد ہی بہت موٹا ہو گیا۔ مقامی لوگ اسے مویشی چور کے نام سے جاننے لگے۔

جیسے انسان وقت کے ساتھ ساتھ بہادر ہوتا جاتا ہے، اسی طرح یہ شیر بھی نڈر اور چالاک ہوتا چلا گیا۔

یہ شیر ابھی اتنا بھی چالاک اور نڈر نہ ہوا تھا کہ انسانوں پر ہی ہاتھ صاف کرنے لگ جاتا لیکن روز بروز اس کی گشت طویل سے طویل تر ہوتی گئی۔ اس طرح وہ ایک دن گواجا میں آن پہنچا۔ یہاں اس نے بستی سے ڈیڑھ میل دور ایک نالے میں رہائش رکھی۔ یہاں سے وہ مویشیوں کے ریوڑوں پر حملہ کرتا۔ ہر ہفتے دو سے تین خوب فربہ اور بہترین نسل کے جانور اس کا شکار بنتے۔

مجھے اس شیر کے لاگو یعنی مویشی خور ہونے کے بارے کئی خطوط ملے۔ میں نے اس لئے توجہ نہ دی کہ یہ ایک عام سی بات تھی۔ دوسرا اتنے ڈھیروں مویشیوں میں سے اگر چند ایک شیر کا نوالہ بن بھی جائیں تو کسی کو کیا نقصان پہنچتا۔ کم از کم انسان تو اس کی دست برد سے بچے ہوئے تھے۔

اس شیر کی ہمت اتنی بڑھ گئی کہ دو مواقع پر جب چرواہوں نے اسے بھگانے کے لئے شور مچایا تو یہ الٹا ان کی طرف غراتا ہوا لپکا۔ اگرچہ اس نے ابھی تک کسی انسان پر حملہ نہیں کیا تھا لیکن مجھے اندازہ ہو چلا تھا کہ وہ وقت دور نہیں جب وہ انسانوں پر حملہ کرنا شروع کر دے گا۔

ایک صبح ساڑھے نو بجے میں بنگلور سے اڈیری کی جانب میل ٹرین پر سوار ہو کر جا رہا تھا۔ وہاں سے ساڑھے تین میل کے پیدل سفر کے بعد میں تگراٹھی پہنچا۔ مجھے پرانے دوستوں نے بہت گرمجوشی سے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ میری تواضع کافی سے کئی گئی کیونکہ کھانا تیار ہونے میں کچھ وقت باقی تھا۔ میں نے کھانے کی تیاری کے وقفے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شیر کے بارے معلومات لینا شروع کر دیں۔ مجھے علم ہوا کہ یہ شیر عام شیروں کی طرح ہے اور اب تک اپنی مویشی خوری کی عادت کے باعث کافی بدنام ہو چکا ہے۔ کھانے کے بعد بیل گاڑی میں سوار کر میں گواجا کی طرف روانہ ہوا۔ راستہ کافی خستہ تھا اس لئے ہم شام چھ بجے پہنچے۔ میں نے جتنی دیر وہاں کے باشندوں سے باتیں کیں، میرے بندوں نے میرا خیمہ وہاں سے تین فرلانگ دور ایک نالے کے کنارے لگا دیا۔ یہاں سے شیر کوئی میل بھر دور کہیں رہتا تھا۔

مجھے لوگوں نے بتایا کہ شیر نے پچھلا شکار کوئی دو دن قبل کیا تھا۔ اب اس کا اگلا شکار ایک دو دن میں متوقع تھا۔

اگلے دن ایک بجے اطلاع آئی کہ شیر نے ایک اور پالتو جانور مار ڈالا ہے۔ فوراً ہی میں جائے حادثہ پر پہنچا۔ وہاں جا کر معلوم ہوا کہ شیر نے کھلے میدان میں گائے کو مارا ہے۔ چاروں طرف کم از کم تین سو گز تک کوئی بھی چھپنے کی جگہ نہ تھی۔ شیر گائے کو ہلاک کر کے نالے میں لے گیا۔ یہ وہی نالہ تھا جس کے کنارے میرا خیمہ نصب تھا۔ نالے کے کنارے نرم مٹی پر شیر کے گھات لگانے اور پھر گائے پر حملہ آور ہونے کے نشانات واضح تھے۔ یہاں اس نے جب حملہ کیا تو گائے نے کچھ دوڑنے کی کوشش تو کی لیکن شیر نے اسے فوراً ہی جا لیا اور مار ڈالا۔ اس کے بعد شیر نے گائے کو اٹھایا اور نالے میں لے گیا۔ یہاں کسی قسم کے گھیسٹنے کے نشانات نہ تھے۔ شیر کے پنجوں کے نشانات کافی گہرے ثبت تھے کیونکہ شیر کا اپنا وزن اور پھر گائے کا اضافی وزن اس نرم مٹی پر کافی گہرے نشانات چھوڑ گیا۔

میں نے ان نشانات کا کافی احتیاط سے جائزہ لیا اور پھر شیر کا پیچھا شروع کر دیا۔ امید تھی کہ میں جلد ہی شیر یا اس کے شکار تک پہنچ جاؤں گا۔ مجھے اندازہ تھا کہ میری آمد کو محسوس کر کے شیر سامنے ضرور آئے گا۔ لیکن ایسا نہ ہوا۔ میرا خیال ہے کہ شیر کی چھٹی حس نے اسے خبردار کر دیا تھا کہ اسے میرے سامنے ہرگز نہ آنا چاہیئے۔ شیر مجھ سے کچھ ہی دور گھاس میں چھپا غراتا رہا۔ بالاخر اس نے غراہٹ کے ساتھ فرار اختیار کی۔

یہاں ایک نہایت ہی مناسب درخت موجود تھا۔ میں نے اس پر اپنی چارپائی والی مچان بندھوائی اور شام چار بجتے بجتے اس پر بیٹھ گیا۔ شیر رات کو آٹھ بجے آیا اور سیدھا آ کر درخت کے نیچے کھڑا ہوگیا۔ مجھے اس کی آمد کا اندازہ اس کی سانس لینے کی آواز سے ہوا۔ اس نے اتنی احتیاط سے قدم رکھے کہ ایک بھی سوکھا پتہ نہ چرمرایا۔ اس نے پھر خود کو چاٹنا شروع کر دیا۔ پھر اس نے درخت کی چھال پر اپنے پنجے تیز کرنا شروع کر دیئے۔ اس وقت وہ پچھلے پنجوں پر کھڑا تھا۔ اس کی نظر مچان پر پڑ گئی اور ہلکی سی آواز کے ساتھ اس نے چھلانگ لگائی اور گم ہو گیا۔ بقیہ رات وہ نہ پلٹا۔

اگلے دن میں نے نالے کے کنارے ایک بچھڑا بندھوا دیا جہاں شیر کی رہائش کافی نزدیک تھی۔ میں نے خود ایک نزدیکی درخت پر مچان باندھی اور اس پر بیٹھ گیا۔ یہ درخت نالے پر کوئی 60 ڈگری پر جھکا ہوا تھا۔

3 بجے میں بیٹھا۔ ساڑھے پانچ بجے مجھے شیر کے ہانپنے کی آواز آئی۔ وہ نالے کے دوسرے کنارے سے ایک مردہ گائے کو گھسیٹ کر لا رہا تھا۔ وہ کوئی 80 گز دور ہوگا کہ میں نے اس کی گردن کا نشانہ لیتے ہوئے فائر کیا۔ فائر کرتے ہی شیر اچانک اپنی جگہ سے آگے بڑھا۔ اس طرح گولی اسے گردن کی بجائے کچھ پیچھے جا کر لگی جو مہلک نہ ثابت ہوئی۔ اس نے غراہٹ کے ساتھ چھلانگ لگائی اور نالے سے ہوتا ہوا غائب ہو گیا۔ میں درخت سے نیچے اترا اور بچھڑے کو لے کر گواجا واپس آیا۔ مجھے اندازہ تھا کہ اگلی صبح آرام سے خون کے نشانات کی مدد سے شیر کو تلاش کر کے ہلاک کر دوں گا۔ تاہم میرا یہ اندازہ غلط نکلا۔

اگلی صبح میں نے خون کے نشانات کا پیچھا شروع کیا۔ میرے ساتھ ہر طرح سے قابل اعتبار دو مقامی افراد بھی تھے۔ یہ نشانات نالے سے ہوتئے ہوئے کافی دور جا کر باہر نکلے۔ ہم نے بہت دور تک پیچھا جاری رکھا لیکن شیر کہیں بھی نہیں رکا تھا۔ دو میل دور جا کر شیر نے ایک جگہ تھوڑا سا دم لیا تھا۔ میرا خیال تھا کہ وہ یہاں سے املی گولا اور پھر اس کے بعد موجود گیم ریزور کی طرف جا رہا ہے۔ اگر وہ ایک بار ادھر پہنچ جاتا تو وہ ہماری پہنچ سے باہر ہو جاتا۔ گیم ریزرو میں آتشیں اسلحہ حتٰی کہ زخمی شیر کا تعاقب کرتے ہوئے بھی لے جانا ممنوع تھا۔

آگے بڑھتے ہوئے شیر مزید دو جگہوں پر رکا تھا۔ پہلی جگہ خون کافی مقدار میں بکھرا ہوا تھا۔ دوسری جگہ خون کی مقدار کافی کم تھی۔ اس کے بعد سے خون کے نشانات کم سے کم تر ہوتے چلے گئے۔ شاید اس کی کھال کے نیچے موجود چربی کی موٹی تہہ نے زخم کو ڈھانپ لیا تھا۔

ہم جلد ہی املی گولا کے نزدیک پہنچ گئے۔ یہاں سے گیم ریزرو کوئی میل بھر ہی دور تھا۔ یہاں ہماری قسمت نے ہمارا ساتھ دیا۔ یہاں ایک ندی راستے میں پڑتی تھی جو کہ اس وقت لبالب بھری ہوئی تھی۔ یہاں سے شیر کے نشانات اوپر کی طرف مڑ گئے۔ شاید اس نے اپنا ارادہ بدل دیا تھا۔ شاید وہ پینے کے پانی کی تلاش میں تھا۔ یہاں ہم پہلے تالاب تک پہنچے۔ یہاں شیر نے پانی پیا تھا اور نشانات سے اندازہ ہوتا تھا کہ اس نے کچھ دیر آرام بھی کیا تھا۔ یہ نشانات کم از کم گھنٹہ بھر قبل کے ہوں گے۔ اس سے ہمیں مہمیز ملی۔ یہاں سے فرلانگ بھر دور ایک اور تالاب تھا۔ یہاں بھی شیر رکا تھا۔ یہاں شیر کے قدموں کے نشانات سے تازہ تازہ پانی ابھر رہا تھا۔ شاید شیر ہماری ہی آہٹوں سے گھبرا کر آگے بڑھ گیا ہوگا۔ یعنی وہ زیادہ دور نہیں تھا۔

یہاں سے میں نے ارادہ بدلا کہ تعاقب کرنے سے بہتر ہے کہ گھات لگائی جائے۔ پیچھے کرنے سے شاید شیر گھبرا کر گیم ریزور کی طرف جانے کا سوچتا جو کہ میل بھر ہی دور تھی۔ میں نے اپنے ساتھیوں کو اشارہ کیا کہ وہ درخت پر چڑھ جائیں اور میں خاموشی سے نالے کے کنارے چڑھ کر چل پڑا۔ یہاں سے میں نے نالے کے ساتھ ساتھ متوازی تیزی سے چلنا شروع کیا۔ نصف میل دور جا کر نالا پھر بل کھا کر سامنے آ گیا۔ یہاں میں نیچے اترا اور واپسی کا رخ اختیار کیا تاکہ شیر کو اس کی لاعلمی میں جا لوں۔ بدقسمتی سے شیر نے میری آہٹ سنی یا پھر اس کی چھٹی حس نے خبردار کر دیا اور وہ واپس مڑا اور گیم ریزرو کی طرف چل پڑا۔

یہاں سے میں نے خون کے اکا دکا نشانات کا پیچھا کیا جہاں وہ جھاڑی میں گھسا تھا۔ میں نے ایک سرے پر رک کر درخت کی اوٹ سے جھانکا تو شیر نہ دکھائی دیا۔ اگر میں اپنے ساتھیوں کو بلانے کی کوشش کرتا تو شیر خبردار ہو کر نکل جاتا۔ اتفاقاً میری نظر ہلتی ہوئی گھاس پر پڑی جو شیر کی حرکت کی چغلی کھا رہی تھی۔ میں نے اپنی جگہ سے حرکت کی اور گھاس میں چل پڑا۔ آگے چل کر گھاس کافی چھدری ہو گئی تھی۔ اچانک ہی میری اس پر پڑی اور اسی لمحے شیر نے مجھے دیکھا۔ میں نے اس کے دائیں پہلو پر فائر کیا۔ گولی کھاتے ہی اس نے مجھ پر حملہ کر دیا۔ مگر پانچ ہی قدم چل کر اس کی ہمت جواب دے گئی اور وہ نیچے گرا۔ میں نے اس پر دوسری گولی چلائی۔ دوسری گولی کھاتے ہی وہ اچھلا اور جھاڑیوں میں گھس گیا۔

میں نے سیٹی بجا کر ساتھیوں کو بلایا جو فائروں کی آواز سن کر پہلے ہی میری طرف روانہ ہو چکے تھے۔ جب وہ پہنچے تو میں نے انہیں تفصیل بتائی اور انہیں درخت پر چڑھ جانے کی ہدایت کی کہ وہ شیر کی موجودگی سے مجھے آگاہ کرتے رہیں۔ دونوں ایک دوسرے سے پچاس پچاس گز دور تھے۔ ہدایت یہ تھی کہ شیر کو دیکھتے ہی سیٹی بجا کر آگاہ کریں۔ میں خود نالے کی طرف چل پڑا کہ اگر شیر واپس پلٹے تو میں ادھر اسے روک سکوں۔

نالے میں چلنا انتہائی دشوار تھا۔ ہر لحظہ یہ خطرہ تھا کہ شیر کنارے سے، دائیں یا بائیں یا پھر عقب سے حملہ نہ کر دے۔ آدم خور شیر کے شکار میں یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ کبھی بھی زخمی شیر کا پیچھا کرتے ہوئے نالے میں نہ اترا جائے۔ اس بات کا قوی امکان ہوتا ہے کہ شیر نالے کے کنارے سے جست لگا کر شکاری کو بے خبری کے عالم میں دبوچ سکتا ہے۔ میں کافی نا امید ہو چلا تھا کیونکہ اب اس بات کا قوی امکان تھا کہ شیر کہیں کاواڈی بنڈا نہ جا کر مرے۔

پھولی ہوئی سانسوں اور بھری رائفل کے ساتھ اور ٹریگر پر انگلی رکھے میں نالے میں اترا تھا کہ شیر اگر جھاڑی میں چھپا ہوا ہو تو اسے ہلاک کر سکوں۔ اب اسے جھاڑی سے کیسا نکالا جاتا، یہ ایک الگ مسئلہ تھا۔

واپس لوٹ کر میں نے دونوں ساتھیوں کو بلایا اور مشورہ کیا۔ شیر کی اندازاً کسی خاص جگہ موجودگی کو جانے بغیر اس جھاڑیوں بھرے قطعے میں گھسنا خودکشی ہوتا۔ اچانک ایک خیال کوندے کی طرح لپکا۔ میں نے نالے میں اتر کر اپنی قمیض اتاری۔ اس کے بازو اور گلے کو بند کر کے اس میں زیادہ سے زیادہ پتھر باندھ لئے۔ ایک ساتھی اس بیگ نما قمیض کو لے کر اوپر آیا اور ہم نے جھاڑیوں میں سنگ باری شروع کر دی۔ بالاخر شیر نے ہم سے 30 گز دور، دائیں جانب سے غراہٹ کی آواز نکالی۔

شیر یقیناً کافی زخمی تھا اور حرکت سے معذور بھی۔ اس کے باوجود ہر اس پتھر پر غراتا جو اس کے نزدیک گرتا۔

اپنے ساتھیوں کو سنگ باری جاری رکھنے کا کہہ کر میں چکر کاٹ کر اس خطے کے عقبی طرف سے آنے کی کوشش کرنے لگا۔ کچھ دیر بعد پیچھے پہنچا تو شیر کے غرانے کی آواز میرے سامنے سے آ رہی تھی۔ پتھر گرنے کی آواز بھی آ رہی تھی۔ جب تک مجھے شیر کی آواز سنائی دیتی رہی، میں آگے بڑھتا رہا۔ جونہی میں قریب پہنچا تو شیر نے شاید میری آمد کی آہٹ سنی اور خاموش ہو گیا۔ میرے ساتھیوں کو بھی اندازہ ہو گیا کہ شیر میری عقب سے آمد کو بھانپ چکا ہے۔ انہوں نے شیر کی توجہ ہٹانے کے لئے چند اور پتھر مزید تیزی اور دور پھینکے۔ شیر خاموش رہا۔

مجھے اندازہ تھا کہ اب میں بے حد محتاط ہو جاؤں۔ شیر کسی بھی لمحے حملہ کر سکتا ہے۔ میں رک گیا اور اپنے حواس مجتمع کئے۔ میں ہر ممکن آہٹ سننے کے لئے تیار تھا۔ وقت خاموشی سے گزرتا رہا۔ پتھر گرنے کی آواز آتی رہی۔ میرے اندر بڑھتے ہوئے خطرے کا احساس بڑھتا رہا۔ ہر وقت یہی محسوس ہو رہا تھا کہ شیر میرے نزدیک سے نزدیک تر ہو رہا ہے۔ اس خاموشی کو توڑنے کے لئے یا تو میں خود چیختا یا پھر ہٹ جاتا۔ ورنہ یہ خاموشی میرے اعصاب کو جکڑ رہی تھی۔

اچانک ہی میں پیچھے مڑا۔ اسی وقت دو جھاڑیوں کے درمیان شیر میرے عقب میں مجھ پر چھلانگ لگانے کے لئے بالکل تیار حالت میں تھا۔ ہماری آنکھیں ملتے ہی اس نے دھاڑ لگا کر حملہ کر دیا۔ اس دوران میری ونچسٹر رائفل دو بار بولی۔ دونوں گولیاں شیر کے منہ پر لگیں۔ میں ذرا سا ہٹا اور شیر میرے سامنے آ کر گرا۔ اس نے آخری بار ٹانگیں چلائیں اور چند ہی فٹ کے فاصلے سے میں نے ایک اور گولی اس کے دل میں اتار دی۔

گواجا کے اس بوڑھے شیر کی گیم ریزور واپس جانے کی تمام تر کوششیں ناکام ہو گئیں۔

پانا پتی کا پاگل ہاتھی

یہ ہاتھی، جس کے بارے میں یہ داستان لکھ رہا ہوں، دیگر ہاتھیوں کی مانند ایک چھوٹی جسامت کا نر ہاتھی تھا۔ اس کی کل اونچائی ساڑھے سات فٹ تھی۔ عموماً ہندوستانی ہاتھی کے اگلے پیر کے نشان کی گولائی کا مربع اس کی اونچائی کے برابر ہوتا ہے۔ اتنی سی جسامت کے برعکس اس میں مکاری، کینہ پروری اور انسانوں سے دشمنی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔

اس کا بیرونی صرف ایک دانت تھا۔ یہ کوئی ڈیڑھ فٹ لمبا ہوگا۔ کہا جاتا ہے کہ اس کا دوسرا دانت دریائے کاویری کے کنارے ایک لڑائی میں ٹوٹا تھا۔ یہ لڑائی غول کے بڑے نر سے ہوئی تھی۔ جب اس نوجوان نے غول کی ماداؤں پر بری نظر ڈالی تو غول کے بڑے نر اور سردار نے اسے غول سے نکال باہر کیا۔ اس نوجوان ہاتھی نے بدلے میں لڑائی کی ٹھانی۔

یہ اپنی نوعیت کی ایک عجیب لڑائی تھی۔ تجربہ، عمر اور طاقت میں اس سے کہیں بڑے ہاتھی نے اسے بری طرح مارا۔ اسے بہت بری طرح اور نہایت بے دردی سے کچلا اور نوچا گیا تھا۔ اس کے پہلو پر سردار کے دانتوں کے نشانات تھے۔ اس لڑائی کے باعث اسے غول چھوڑنا پڑا۔ چھوٹے موٹے زخموں کے علاوہ اسے دانت بھی گنوانا پڑا جو ظاہر ہے کہ بہت دن تک درد کی اذیت بھی جھیلنی پڑی ہوگی۔

اس حالت میں بھی وہ غول سے کچھ ہی فاصلے پر ان کے ساتھ ساتھ حرکت میں رہا۔ لیکن اسے گروہ میں شامل ہونے کی اجازت نہ تھی۔ اس طرح آوارہ گردی کے دوران میں اسے ایک دن پگڈنڈی پر ایک بیل گاڑی آتی دکھائی دی جس پر کٹے ہوئے بانس لدے ہوئے تھے۔ اس ہاتھی پر اچانک ہی دورہ پڑا اور اس نے اپنی لڑائی کا غصہ بیل گاڑی پر نکالنے کی ٹھانی۔ اس نے فوراً ہی ہلہ بول دیا۔ گاڑی بان نے ہاتھی کو دیکھتے ہی چھلانگ لگا کر دوڑ لگائی اور اس طرح بچ گیا۔ بیچارے بیل گاڑی میں جتے ہوئے تھے اور ان پر کافی وزنی لکڑی لدی ہوئی تھی۔ بیچارے اپنی موت کو سامنے دیکھ کر وہ بھاگ بھی نہ سکے۔ یہ ہاتھی جو اب انتقام کی آگ میں پاگل اور اندھا ہو رہا تھا، نے گاڑی کو ماچس کی تیلیوں کی طرح توڑ موڑ کر رکھ دیا۔ پھر وہ بیلوں کی طرف مڑا۔ ایک بیل کو اس نے سینگ سے سونڈ میں پکڑ کر ہوا میں اچھالا۔ اگلے دن جب بیل کی لاش ملی تو اس کا سینگ جڑ سے غائب تھا اور ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ کر اور کھال کو پھاڑتی ہوئی زمین میں گھسی ہوئی تھی۔ اب ہاتھی نے دوسرے بیل کا رخ کیا۔ خوش قسمتی سے دوسرا بیل گاڑی کے ٹوٹنے اور دوسرے بیل کے مارے جانے پر فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔

اس دن سے اس ہاتھی کی ہوا بگڑتی چلی گئی۔ دور دراز کے کئی مسافر اس کے پیروں تلے کچل کر، دانت کی زد میں آ کر، سونڈ میں جکڑ کر زمین پر پٹخے جانے یا پھر درخت سے ٹکرائے جانے سے ہلاک ہوئے۔

اس ہاتھی سے میری پہلی مڈبھیڑ اتفاقاً ہوئی تھی۔ میں "ہگینی کال" نامی جگہ گیا ہوا تھا۔ یہ پانی پتی سے 4 میل دور اور دیرائے کاویری کے کنارے واقع ہے۔ میرا ارادہ تھا کہ اختتام ہفتہ پر مہاشیر مچھلی کا شکار کھیلوں گا۔ اگر قسمت نے یاوری کی تو ایک آدھ مگرمچھ بھی ہاتھ لگ جائے گا۔ ان دنوں یہ مشہور ہو چلا تھا کہ یہ ہاتھی دریا عبور کر کے کسی دوسرے غول میں شامل ہو کر ادھر سے چلا گیا ہے۔

قیام کے دوسرے دن میں مچھلی کا شکار کھیل کر بنگلے کی طرف پلٹا۔ مجھے چائے کی طلب ہو رہی تھی۔ اچانک ساتھ ہی جنگل سے مور کی آواز آئی۔ میں چائے کو بھلا کر رات کے کھانے کے لئے مور کے سہانے خیال میں کھو گیا۔

میں نے دو عدد 1 نمبر کے کارتوس جیب میں ڈالے اور بندوق اٹھا کر اس طرف چل پڑا جہاں سے مور کی آواز سنائی دی تھی۔ یہاں آ کر میں ذرا رکا کہ مور کو تلاش کروں۔ میرا اندازہ تھا کہ مور اس وقت دریائے چنار کے خشک حصے میں ہوگا۔ دریائے چنار آگے چل کر دریائے کاویری سے جا ملتا ہے۔

ندی کی نرم ریت پر میرے ربر سول کے جوتے بالکل آواز پیدا نہ کر رہے تھے۔ یہاں مجھے مور کے پر پھڑپھڑانے کی آواز صاف سنائی دے رہی تھی۔ مور دریا کے دوسرے کنارے پر تھا۔ ابھی میں دریا کا خشک پاٹ عبور کر ہی رہا تھا کہ میں نے ایک فلک شگاف چنگھاڑ سنی۔ مجھ سے محض 50گز دور ہاتھی نمودار ہوا۔ اس کا رخ میری طرف تھا۔

ہاتھی کے دوڑنے کی رفتار بہت تیز ہوتی ہے۔ یہ ناممکن تھا کہ میں اس سے زیادہ تیز دوڑ پاتا۔ دوسرا ندی کے پاٹ کی ریت اتنی نرم اور بھربھری تھی کہ میں بھاگ بھی نہ سکتا۔ میں نے فوراً ہی ٹوٹے ہوئے ایک درخت کے تنے کی اوٹ لی اور باری باری بندوق کی دونوں نالیاں چلا دیں۔ اس وقت ہاتھی مجھ سے کوئی 30 گز دور ہوگا۔

کارتوسوں کے چلنے کا دھماکہ، بارود کا دھواں اور ننھے منے چھروں کی بوچھاڑ کا اتنا اثر ہوا کہ ہاتھی ذرا بھر رکا۔ میرے لئے اتنی مہلت کافی تھی۔ میں سر پر پیر رکھ کر دوڑا۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ میں اتنا تیز کیسے دوڑا۔ خالی بندوق میرے ہاتھ میں تھی۔ بنگلے پر پہنچ کر میں نے رائفل اٹھائی اور واپس اسی طرف دوڑ پڑا۔ اب دریائے چنار کے دونوں کنارے خالی پڑے تھے۔ ہاتھی دریا کی دوسری طرف جا کر جنگل میں گم ہو گیا تھا۔ اب چونکہ اندھیرا چھانے والا تھا تو میں نے اس پر زیادہ توجہ نہ دی۔

اگلے دن مجھے واپس بنگلور لوٹنا تھا جس کی وجہ سے میں یہاں مزید قیام نہیں کر سکتا تھا۔ اس طرح اس ہاتھی پر پہلی گولی چلانے کا سنہری موقع میں نے گنوا دیا۔

اس ہاتھی کو سرکاری طور پر پاگل قرار دے کر عام اعلان کرا دیا گیا تھا کہ اس ہاتھی کو مارنے پر 500 روپے یعنی 34 پاؤنڈ کا انعام دیا جائے گا۔ یہ اعلان بذریعہ ڈھنڈورچی اور بذریعہ اشتہار، ہر طرح سے کیا گیا تھا۔

اس علاقے کے ایک مشہور مقامی بندے نے اس ہاتھی کو مارنے اور انعام پانے کی ٹھانی۔ اس کی المناک کہانی کچھ یوں رہی۔

اعشاریہ 500 بور کی دو نالی ایکسپریس رائفل اس کے پاس تھی جو کالے بارود سے چلتی تھی۔ یہ رائفل اس کے اچھے دنوں کی یادگار تھی۔ وہ رائفل کے ہمراہ پانا پتی پہنچا۔ یہاں اسے معلوم ہوا کہ ہاتھی ساتھ والے جنگل میں موجود ہے۔ دریائے چنار کے کنارے جہاں میں کچھ ہی دن قبل ہاتھی کا شکار ہوتے ہوتے بچا، یہاں سے نزدیک ہی تھا۔ اس دریا کے ایک کنارے پر "ووڈا پٹی" کا گیم ریزرو اور دوسرے پر پناگرام بلاک ہے۔

یہ آدمی بیچارہ دو دن تک ہاتھی کی تلاش میں سرگرداں مارا مارا پھرتا رہا۔ تیسری رات اس نے اپنا خیمہ دریا سے دو میل اندر جنگل میں لگایا تاکہ رات بسر کی جا سکے۔ ہاتھی کے متعلق اس کا اور اس کے ہمراہیوں کا اندازہ تھا کہ وہ دریا کی دوسری طرف ہے۔ پھر بھی انہوں نے احتیاطاً خیموں کے گرد آگ جلا لی۔ اس نے اپنے ہمراہیوں کو ہدایت کی کہ وہ ڈھیر ساری لکڑیاں اکٹھی کر لیں تاکہ رات بھر آگ جلتی رہے۔

اس وقت جنگل بالکل پر سکون تھا۔ باری باری تمام افراد نیند اور تھکن سے بے حال ہو کر سوتے چلے گئے۔

علی الصبح ہاتھی اتفاقاً ادھر سے گذرا۔ اس وقت تک آگ دھیمی پڑ چکی تھی۔ جا بجا انگارے ہی دہک رہے تھے۔ عموماً ہاتھی اور دیگر جانور آگ کے نزدیک نہیں جاتے۔ شاید اس ہاتھی نے جب خیمے دیکھے تو اس پر وحشت غالب آ گئی۔ اس نے وہ جگہ تلاش کی جہاں آگ اور انگارے بالکل نہ تھے۔ ایک طویل چنگھاڑ کے ساتھ وہ ایک خیمے پر ٹوٹ پڑا۔

دوسرے خیمے کے افراد کی آنکھ چنگھاڑ سن کر کھل گئی اور وہ لوگ بھاگ نکلے۔ دوسرے خیمے کے مالک کو جاگنے یا اپنی رائفل استعمال کرنے کا موقع تک نہ ملا۔ ہاتھی نے اس خیمے کو اکھاڑ کر اس پر اپنی سونڈ پھیرنی شروع کر دی۔ جونہی سونڈ سے بیچارہ شکاری مس ہوا، ہاتھی نے اسے پکڑ کر سر سے اونچا اٹھایا اور پھر زمین پر پٹخ دیا اور اس پر اپنا پیر رکھ کر اسے کچل دیا۔ چند منٹ بعد شکاری کی جگہ خون اور قیمے کی ٹکیا سی پڑی تھی۔ ہاتھی ایک بار پھر جنگل میں گھس کر غائب ہو گیا۔

اس واقعے کے بعد حکومت نے اس ہاتھی کے مارنے پر انعام دگنا کر کے 1000 روپے کر دیا۔ اس انعام سے مجھے بھی لالچ ہوا کہ میں اس ہاتھی کو شکار کروں۔

پانا پتی پہنچ کر میں نے اس حالیہ حادثے کے مقام کا معائینہ کیا۔ مجھے اس ہاتھی کی درندگی پر حیرت ہوئی کہ وہ کیسے آگ کے دائرے میں گھسا ہوگا۔ وہ جگہ بالکل پاس ہی تھی جہاں ہاتھی نے شکاری کو ہلاک کیا تھا۔ اس وقت تک بیچارے شکاری کی باقیات تک کو کوے ہڑپ کر گئے تھے۔

پانا پتی لوٹ کر میں نے اپنی مدد کے لئے ایک مقامی چرواہے کو تیار کیا۔ یہ چرواہا جنگل سے بخوبی واقف اور اچھا کھوجی تھا۔ یہاں پر جگہ جگہ ہاتھی کے پیروں کے نشانات تھے۔ مسئلہ یہ تھا کہ تازہ نشانات کیسے تلاش کریں جس کا پیچھا کیا جا سکے۔ یہ کام بظاہر ناممکن سا لگتا تھا کیونکہ ہاتھی اب دریا کے دوسرے کنارے جنگل میں یا پھر اس طرف کی پہاڑیوں کی طرف نکل گیا ہوگا جو بمشکل 4 میل دور تھیں۔

"وڈا پٹی" والا کنارا دو میل چوڑی پھولدار گھاس سے ڈھکا ہوا تھا۔ یہ گھاس تقریباً دس فٹ بلند تھی اور نہایت خوبصورت پھولوں سے ڈھکی ہوئی تھی۔ یہ پھول صبح سویرے گرنے والی شبنم سے چمک رہے تھے۔ یہ گھاس اتنی گھنی تھی کہ یہاں گز بھر دور کی چیز بھی نہ دکھائی دیتی۔ ہاتھی کے گزرنے کے نشانات موجود تھے اور ہاتھی کے بوجھ تلے کچلے جانے والے پھولوں کے تنے اب آہستہ آہستہ دوبارہ اٹھ رہے تھے۔

اس گھاس کی پٹی کی چوڑائی 100 سے 200 گز تک تھی۔ یہاں پہاڑیاں بالکل متصل تھیں۔ ان میں گھسنتا اور پھولدار گھاس میں گھسنا یکساں خطرناک تھا۔ اس جگہ ہر طرف بانس کے درخت گرے ہوئے تھے جن کے باعث قدم بڑھانا نا ممکن تھا۔

ہم نے اس علاقے میں چار روز تک ہاتھی کی تلاش جاری رکھی۔ ہماری یہ تلاش دریائے کاویری سے لے کر 35 میل دور ایک بند تک جاری رہی۔ ہمیں کہیں بھی ہاتھی کے نشانات نہ ملے۔

پانچویں دن دوپہر کو میں اور میرا ساتھی کھوجی دوبارہ دریائے کاویری کے کنارے تھے۔ اس بار میں نے فیصلہ کیا کہ اس بار ہم دریا سے اوپر کی طرف تلاش کرتے ہیں۔ تین میل کا فاصلہ ہم نے گرے ہوئے درختوں، گھنی گھاس اور پتوں سے بڑی مشکل سے طے کیا۔ یہاں ہمیں ہاتھی کے پیروں کے بالکل تازہ نشانات ملے۔ یہ نشانات آج صبح کے تھے اور ہاتھی دوسرے کنارے سے اس طرف پہنچا تھا۔ یہ نشانات پاگل ہاتھی کے نشانات سے مماثل تھے۔

اب پیچھا کرنا آسان ہو گیا۔ نشانات نہ صرف تازہ اور واضح تھے بلکہ ہاتھی کے گزرنے کے باعث راستہ سا بھی بنا ہوا تھا۔

یہاں ہم لوگ نشانات کا پیچھا کرتے کرتے پہاڑی تک آن پہنچے۔ یہاں ہمیں ہاتھی کی لید کا ڈھیر دکھائی دیا۔ یہ لید تازہ تھی لیکن اس میں حرارت باقی نہیں تھی۔ ہم مزید آگے بڑھے۔ وادی میں پہنچ کر ہم نے لید کا ایک اور ڈھیر دیکھا۔ یہ بھی سرد ہو چکا تھا۔ یعنی ہاتھی اب بھی ہم سے کافی آگے تھا۔

تھوڑا سا آگے چل کر ہم نے دیکھا کہ ہاتھی نے اچانک اپنا رخ بدلا ہے اور وہ اب دریائے کاویری کی طرف جا رہا ہے۔

ہمیں خطرہ ہوا کہ کہیں ہاتھی دریائے کاویری عبور کر کے ہم سے بچ نکلنے میں کامیاب نہ ہو جائے۔ ہر ممکن تیزی سے آگے بڑھتے ہوئے آگے ہم نے ایک جگہ ہاتھی کی بالکل تازہ اور گرم لید دیکھی۔ پیشاب ابھی بھی زمین میں پوری طرح جذب نہ ہوا تھا۔ آخر کار ہم ہاتھی کے بہت نزدیک پہنچ گئے تھے۔

اب ہم نے باقاعدہ دوڑ شروع کر دی کہ ہم ہاتھی سے قبل یا پھر اس کے ساتھ ہی دریائے کاویری تک پہنچیں۔ یہاں ٹوٹے ہوئے درختوں کی شاخوں سے پانی رس رہا تھا جو ظاہر کرتا تھا کہ ہاتھی ابھی ابھی یہاں سے گزرا ہے۔

آخر کار ایک ڈھلوان عبور کرتے ہی پانی بہنے کی آواز آئی۔ موڑ مڑتے ہی دریائے کاویری ہمارے سامنے تھا۔ خاموشی اور احتیاط سے آگے بڑھتے ہوئے ہم نرم ریت تک پہنچے۔ یہاں ہمارے اندازے کے برعکس ہاتھی نے دریا عبور کرنے کی بجائے دریا کے ساتھ ساتھ ہی چلتے رہنے کا فیصلہ کیا تھا۔

150گز مزید دور جا کر ہمیں ایک چھوٹا سا گڑھا دکھائی دیا جس میں پانی جمع تھا اور ہاتھی کے کلیلیں کرنے کی آوازیں بھی آ رہی تھیں۔ ہاتھی نہا رہا تھا۔

خوش قسمتی سے ہوا ہاتھی سے ہماری طرف چل رہی تھی۔ ہم احتیاط سے اور جھک کر بڑھے تو ہاتھی دکھائی دیا۔ اس کا منہ دوسری طرف تھا۔

یہاں اس زاویے سے یہ کہنا بالکل نا ممکن تھا کہ یہ ہاتھی وہی پاگل ہاتھی ہی ہے۔ ہم نے انتظار کی ٹھانی کہ کب ہاتھی اپنا رخ بدلتا ہے۔

5 منٹ مزید نہانے کے بعد اچانک ہاتھی اٹھا اور گڑھے سے باہر نکلا۔ اس وقت تک بھی اس کا رخ مخالف سمت تھا اور ہم اس کے دانت نہ دیکھ سکے تھے۔

اب ہم نے بعجلت فیصلہ کرنا تھا کہ کیا کریں۔ اگر ہاتھی ایک بار دریا کے کنارے پہنچ جاتا تو پھر گم ہو جاتا۔ میں اچانک دو بار چٹکی بجائی۔ یہ آواز ہاتھی کے حساس کانوں تک فوراً پہنچی اور وہ رک گیا۔ پھر وہ مڑا۔ یہ وہی پاگل ہاتھی تھا جس کا صرف ایک بیرونی دانت تھا۔ اس کا یہ دانت دائیاں تھا، بائیں جانب والا دانت غآئب تھا۔ اس کی سونڈ وحشیانہ انداز میں اٹھی ہوئی تھی۔ اس نے سیکنڈ سے بھی کم وقت میں ہمیں تلاش کر لیا۔ سونڈ لہراتے ہوئے وہ ہماری جانب بڑھا۔

اسی لمحے میری اعشاریہ 405 بور کی رائفل بول پڑی۔ یہ گولی اس کی سونڈ سے ہوتی ہوئی اس کے حلق سے گذری اور اس کی شہ رگ میں سوراخ کر گئی۔ ہاتھی وہیں رک گیا۔ اس کے حلق سے خون فوارے کی مانند نکل رہا تھا۔ اس نے مڑنے کی کوشش کی۔ اتنے میں میں نے مزید دو گولیاں اس کے ماتھے اور کان کے پیچھے اتار دیں۔ یہ دونوں گولیاں مہلک ثآبت ہوئیں اور ہاتھی گر گیا۔

اس کے سارے بدن پر کپکپی طاری تھی اور گڑھے کا پانی سرخ ہو چلا تھا۔ چند منٹ ہی میں اس کی روح نکل گئی۔

تعارف

شیر کا آدم خوری کی طرف مائل ہونا غیر معمولی امر ہے۔ عام حالات میں ہندوستانی جنگلوں کا یہ بادشاہ نہایت شریف اور قابل احترام جانور ہے۔ شیر ہمیشہ شکار برائے خوراک کرتا ہے۔ حیوانی جبلت کی تسکین کے لئے شکار کرنا شیر کا خاصہ نہیں۔ اس کا شکار عموماً جنگلی چرندے ہوتے ہیں۔ کبھی کبھار یہ سرکاری چراہ گاہوں کے مویشیوں پر بھی ہاتھ صاف کر لیتا ہے۔

بعض اوقات شیرنی اپنے نوعمر بچے کو شکار کے گر سکھاتے ہوئے ایک وقت میں تین سے چار جانور بھی مار سکتی ہے تاکہ بچے کو شکار کے گر اچھی طرح سمجھائے جا سکیں۔ شیر کے شکار کا طریقہ عموماً جانور کی گردن توڑ کر اسے ہلاک کرنا ہوتا ہے۔ شیرنی عام طور پر دو بچے ہی پیدا کرتی ہے لیکن چار تک بچے ہونا عام بات ہے۔ کہا جاتا ہے کہ نر شیر اگر زچگی کے وقت قریب موجود ہو تو آدھے بچے بالخصوص نر بچے وہ خود کھا جاتا ہے۔

شیر کے شکار کا طریقہ، جیسا کہ میں نے اوپر بتایا، جانور کی گردن توڑ کر اسے مارنا ہوتا ہے۔ چیتے اور تیندوے عموماً جانور کا گلہ گھونٹ کر اسے مارتے ہیں۔ شیر شکار کے لئے جانور کے ساتھ بھاگتے ہوئے اس کی پشت پر پنجہ رکھ کر اسے دباتا ہے اور ساتھ ہی اس کی گردن پکڑ کر نیچے کی طرف مروڑ دیتا ہے۔ اس طرح بھاگتے جانور کا اپنا وزن ہی اسے ہلاک کر دینے کے لئے کافی ہو جاتا ہے۔ اس طرح شیر کو زور لگا کر گردن توڑنے کی محنت سے چھٹکارا مل جاتا ہے۔ ویسے میں نے خود اپنی آنکھوں سے شیر کو گردن مروڑ کر بھی جانور کو ہلاک کرتے دیکھا ہے۔ شکار کے دوران شیر کا منہ اتنا کھل جاتا ہے کہ یہ بتانا مشکل ہے کہ وہ جانور کو گردن کے اوپر سے پکڑتا ہے کہ نیچے سے۔ دانتوں کے نشانات بھی اس بات پر روشنی نہیں ڈالتے۔

اسی طرح چیتے اور تیندوے میں ایک دلچسپ فرق ہوتا ہے۔ تیندوے اور چیتے ایک ہی نسل کے جانور ہیں۔ تیندوا نسبتاً بڑی جسامت کا ہوتا ہے اور اکثر جانور کی گردن توڑ کر اسے مارتا ہے جبکہ چیتا گلا گھونٹ کر۔ اس کے علاوہ چیتا چھوٹی جسامت کے جانور بھی مارتا ہے جن میں گھریلو مرغیاں، آوارہ کتے اور چھوٹے موٹے جانور شامل ہیں۔ تیندوا اور چیتا شیر کی نسبت بہت کم طاقتور ہوتے ہیں لیکن مکاری میں لاثانی۔ تیندوے برصغیر، ایشیا اور یورپ میں پائے جاتے ہیں۔

آدم خور چاہے شیر ہو یا تیندوا یا پھر چیتا، ان کی آدم خوری کی سب سے بڑی وجہ انسان ہی ہوتا ہے۔ بندوق یا رائفل سے کئے گئے اوچھے وار کے بعد جب یہ اپنے قدرتی شکار کو مارنے میں ناکام رہنے پر وہ انسان پر حملہ کرتا ہے۔ انسان جب غیر مسلح ہو تو اپنے دفاع سے بالکل معذور ہوتا ہے۔ بعض اوقات آدم خوری کی وجہ سیہہ کے شکار کے دوران لگنے والے کانٹے بھی ہوتے ہیں۔ اسی طرح آدم خور شیرنی اپنے بچوں کو بھی یہ عادت منتقل کر سکتی ہے۔ ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ کسی وبائی بیماری سے مرنے والے افراد کی لاشیں جلائے یا دفن کئے بغیر جنگل میں پھینک دی جاتی ہیں جنہیں کھا کر یہ جانور آدم خوری کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔ بعض اوقات آدم خوری کی وجہ بالکل بھی معلوم نہیں ہو پاتی۔

آدم خور بن جانے کے بعد چاہے وہ چیتا ہو یا تیندوا یا پھر شیر، یہ اپنے ارد گرد کے علاقے کے لئے ایک دہشت بن جاتے ہیں۔ عموماً غریب دیہاتی اپنے دفاع سے معذور ہوتے ہیں اور ان کے پاس دو ہی راستے ہوتے ہیں، یا تو ایک ایک کر کے آدم خور کا شکار ہوتے جائیں اور یا پھر اس علاقے کو چھوڑ کر دور چلے جائیں۔ شیر عموماً ایک ہی علاقے میں محدود رہتا ہے۔ لیکن جوں جوں ہلاکتیں بڑھتی جاتی ہیں، توہم پرستی لوگوں کو اتنا کمزور کر دیتی ہے کہ وہ کچھ کرنے کے قابل نہیں رہ جاتے۔ ایسی صورتحال میں آدم خور کے خلاف حکمت عملی تیار کرنا بالکل ناممکن ہو جاتا ہے۔ سڑکیں ویران ہو جاتی ہیں، دیہاتی آمد و رفت بالکل رک جاتی ہے، جنگلوں کی کٹائی رک جاتی ہے، مویشیوں کو چرانے کے لئے نہیں بھیجا جاتا، کھیت اجڑ جاتے ہیں اور بعض اوقات پورے کا پورا گاؤں دوسری جگہ منتقل ہو جاتا ہے۔ آدم خور کے شکار میں یہ بھی مشکل ہوتی ہے کہ توہم پرست لوگ سمجھتے ہیں کہ اگر وہ اس کے بارے کچھ بھی کہیں گے تو آدم خور کو علم ہو جائے گا کہ کس نے اس کے خلاف بات کی ہے اور پھر سب سے پہلے وہ انہی کا ٹینٹوا دبائے گا۔

اسی طرح ملاپ کے دنوں ہاتھی بھی پاگل ہو جاتے ہیں۔ یہ عرصہ نوے دن پر محیط ہوتا ہے اور اس دوران ہاتھی نہایت خطرناک ہو جاتے ہیں۔ ہاتھی کے کان کے پیچھے والے سوراخ سے بدبو دار اور چکنے مواد کا رسنا اس کی علامت ہوتی ہے۔ اس ملاپ کے زمانے کے بعد یہ ہاتھی عموماً اپنی اصل حالت پر لوٹ آتے ہیں اور خطرہ نہیں رہتے۔ بعض اوقات نوجوان ہاتھی ماداؤں کے شوق میں بڑے نروں سے ٹکرا جاتے ہیں۔ نتیجتاً ان کی بری طرح پٹائی ہوتی ہے اور پھر وہ گروہ سے نکال دیئے جاتے ہیں۔ اس طرح جب وہ گروہ سے الگ ہوتے ہیں تو پھر جو چیز سامنے پڑے اسے توڑ پھوڑ کر اپنا غصہ نکالتے ہیں۔ انسان حسب معمول ایک آسان شکار ہوتا ہے۔

یہ بات واضح رہے کہ ہندوستان کے جنگلات آدم خوروں اور پاگل ہاتھیوں سے بھرے نہیں ہوتے۔ یہاں پگڈنڈی پر جنگل کے وسط میں چلنا اتنا ہی محفوظ ہوتا ہے جتنا کہ کسی بڑے شہر کی سڑک پر چلنا۔

اس کے علاوہ یہاں کی خوبصورتی، حشرات، جانور، پرندے، ان جنگلوں کا جوبن، طلوع اور غروب آفتاب کا وقت اور چاندی جیسی چاندنی راتیں جب چاند بانس کے جھنڈ پر چمکتا ہے، انسان کی تنہائی، اس کا اپنے خالق سے قرب، یہ تمام ایسی چیزیں ہیں جو جنگل کے علاوہ شاید ہی کہیں مل سکیں۔

مجھے توقع ہے کہ یہ کتاب پڑھتے وقت جب آپ کو جغرافیائی اور قدرتی ماحول کی وضاحت پر ایک بڑا حصہ دکھائی دے گا یا جب میں جانوروں اور پرندوں کی آوازوں کی نقالی لکھنے کی کوشش کروں گا تو یہ محض ان سنہری یادوں کو تازہ کرنے کی کوشش ہوگی جن سے ہو سکتا ہے کہ بہت سارے لوگ دور ہو چکے ہوں۔ وہ وقت قریب ہے جب میں خود ان سے بچھڑ جاؤں گا۔

آخر میں میں اپنے والد کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا جنہوں نے مجھے 7 سال کی عمر میں بندوق چلانا سکھایا۔ وہ جنگل سے اتنا زیادہ شغف نہیں رکھتے تھے۔ بطخوں، تیتر اور چھوٹے جانور کا شکار ان کی خوشی کے لئے کافی تھے۔ اس کے علاوہ بیرا کا شکریہ ادا کرنا بھی لازمی ہے جو کہ ایک مقامی پجاری ہے اور دریائے چنار کے کنارے ایک کھوہ میں آج سے 25 سال قبل اس سے میری پہلی ملاقات ہوئی تھی۔ اس نے مجھے جنگل کی الف بے سکھائی تھی۔ جنگل سے میری محبت کا ایک بڑا سبب بیرا ہی ہے۔ اس کے علاوہ میرے ساتھی مقامی شکاری رانگا کا بھی میں بہت مشکور ہوں جس نے بے شمار مہمات میں میرا ساتھ دیا۔ رانگا نے ہر خطرے میں ثابت قدمی دکھائی اور مجھے اس کی دوستی پر ہمیشہ فخر رہے گا۔ سووری جو کہ رانگا کا نائب اور رانگا جتنا ہی عمدہ شکاری تھا، میرے پرانے دوست اور شکار ڈک برڈ اور پیٹ واٹسن کا شکریہ ادا کرنا بھی بے موقع نہ ہوگا جنہوں میرے علم میں سب سے زیادہ شیر مارے ہیں، میرے شروع کے دن میں میرے رہنما تھے۔

Powered by Blogger.